کیمیائی ہتھیاروں کے انسداد کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم ’آرگنائزیشن فار دی پروہیبیشن آف کیمیکل ویپنز ‘ نے بتایا کہ کیمیائی مواد شام کی بندر گاہ الاذقیہ سے ڈنمارک کی ایک کشتی کے ذریعے بین الاقوامی آبی حدود کی جانب روانہ کر دیا گیا۔
شام نے کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی سے متعلق معاہدے کے مطابق ’کیمیائی مواد‘ کی پہلی کھیپ ملک سے باہر منتقل کر دی ہے۔
کیمیائی ہتھیاروں کے انسداد کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم ’آرگنائزیشن فار دی پروہیبیشن آف کیمیکل ویپنز ‘ نے بتایا کہ کیمیائی مواد شام کی بندر گاہ الاذقیہ سے ڈنمارک کی ایک کشتی کے ذریعے بین الاقوامی آبی حدود کی جانب روانہ کر دیا گیا۔
شام روس کے تجویز کردہ ایک معاہدے کے مطابق اپنے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا، امریکہ نے بھی اس معاہدے کی حمایت کی تھی۔
شام میں گزشتہ سال کیمیائی ’سئرن گیس‘ کے استعمال میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے اور مغربی ممالک کی جانب سے اس حملے کا الزام صدر بشار الاسد کی حکومت پر عائد کیا گیا تھا۔
جب کہ شام کی حکومت نے اس کا الزام باغیوں پر عائد کیا تھا۔
اس حملے کے بعد عالمی دباؤ کے تناظر میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کے معاہدے پر شام نے آمادگی ظاہر کی تھی۔
معاہدے کے مطابق شام کی حکومت کو 31 دسمبر 2013 تک کیمیائی مواد ملک سے باہر منتقل کرنا تھا لیکن لڑائی، خراب موسم اور بعض تکنیکی معاملات کے باعث یہ عمل تاخیر کا شکار ہوا۔
’آرگنائزیشن فار دی پروہیبیشن آف کیمیکل ویپنز‘ یعنی (او پی سی ڈبلیو) نے یہ نہیں بتایا کہ شام کا کتنے فیصد کیمیائی مواد پہلی کھیپ کے ذریعے منتقل کیا گیا۔ او پی سی ڈبلیو تنظیم یہ کہہ چکی ہے کہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے مواد کی مقدار 1300 ٹن ہے جسے ملک سے باہر منتقل کیا جانا ہے۔
جس کشتی کے ذریعے کیمیائی مواد منتقل کیا گیا اُس کی حفاظت کے لیے ڈنمارک اور ناروے کے جہاز بھی اس کے ساتھ ہیں جب کہ چین اور روس کے جہاز بھی تحفظ فراہم کیے ہوئے ہیں۔
امریکہ نے کیمیائی مواد کی منتقلی کے عمل کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر بشار الاسد کی حکومت بظاہر معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے نیوز بریفنگ میں کہا کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کی نگرانی کرنے والے بین الاقوامی مبصر مشن نے کہا تھا کہ شام نے کیمیائی ہتھیار بنانے کے آلات تلف کر دیے ہیں۔
آرگنائزیشن فار دی پروہیبیشن آف کیمیکل ویپنز (او پی سی ڈبلیو) کے عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ شام میں تمام مصدقہ تنصیبات پر موجود کیمیائی ہتھیار تیار کرنے کے آلات کو ناقابل استعمال بنا دیا گیا ہے۔
شام میں مارچ 2011ء سے شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ لاکھوں افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر اندرون ملک یا پڑوسی ممالک میں منتقل ہو چکے ہیں۔
کیمیائی ہتھیاروں کے انسداد کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم ’آرگنائزیشن فار دی پروہیبیشن آف کیمیکل ویپنز ‘ نے بتایا کہ کیمیائی مواد شام کی بندر گاہ الاذقیہ سے ڈنمارک کی ایک کشتی کے ذریعے بین الاقوامی آبی حدود کی جانب روانہ کر دیا گیا۔
شام روس کے تجویز کردہ ایک معاہدے کے مطابق اپنے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا، امریکہ نے بھی اس معاہدے کی حمایت کی تھی۔
شام میں گزشتہ سال کیمیائی ’سئرن گیس‘ کے استعمال میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے اور مغربی ممالک کی جانب سے اس حملے کا الزام صدر بشار الاسد کی حکومت پر عائد کیا گیا تھا۔
جب کہ شام کی حکومت نے اس کا الزام باغیوں پر عائد کیا تھا۔
اس حملے کے بعد عالمی دباؤ کے تناظر میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کے معاہدے پر شام نے آمادگی ظاہر کی تھی۔
معاہدے کے مطابق شام کی حکومت کو 31 دسمبر 2013 تک کیمیائی مواد ملک سے باہر منتقل کرنا تھا لیکن لڑائی، خراب موسم اور بعض تکنیکی معاملات کے باعث یہ عمل تاخیر کا شکار ہوا۔
’آرگنائزیشن فار دی پروہیبیشن آف کیمیکل ویپنز‘ یعنی (او پی سی ڈبلیو) نے یہ نہیں بتایا کہ شام کا کتنے فیصد کیمیائی مواد پہلی کھیپ کے ذریعے منتقل کیا گیا۔ او پی سی ڈبلیو تنظیم یہ کہہ چکی ہے کہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے مواد کی مقدار 1300 ٹن ہے جسے ملک سے باہر منتقل کیا جانا ہے۔
جس کشتی کے ذریعے کیمیائی مواد منتقل کیا گیا اُس کی حفاظت کے لیے ڈنمارک اور ناروے کے جہاز بھی اس کے ساتھ ہیں جب کہ چین اور روس کے جہاز بھی تحفظ فراہم کیے ہوئے ہیں۔
امریکہ نے کیمیائی مواد کی منتقلی کے عمل کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر بشار الاسد کی حکومت بظاہر معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے نیوز بریفنگ میں کہا کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کی نگرانی کرنے والے بین الاقوامی مبصر مشن نے کہا تھا کہ شام نے کیمیائی ہتھیار بنانے کے آلات تلف کر دیے ہیں۔
آرگنائزیشن فار دی پروہیبیشن آف کیمیکل ویپنز (او پی سی ڈبلیو) کے عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ شام میں تمام مصدقہ تنصیبات پر موجود کیمیائی ہتھیار تیار کرنے کے آلات کو ناقابل استعمال بنا دیا گیا ہے۔
شام میں مارچ 2011ء سے شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ لاکھوں افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر اندرون ملک یا پڑوسی ممالک میں منتقل ہو چکے ہیں۔