شام کے صدر بشارالاسد نےاپنے ایک شاذونادر ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہاہے کہ گذشتہ 14 ماہ سے جاری حکومت مخالف تحریک پر کنٹرول کرنے کے ایک حصے کے طور پر ان کی حکومت جمہوریت پسندسرگرم کارکنوں کے ساتھ نہیں بلکہ ان دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہی ہے جنہیں بیرونی حمایت حاصل ہے ۔
روسی ٹیلی ویژن کے ساتھ اپنے انٹرویو میں مسٹر اسد نے بتایا کہ بین الاقوامی مذمت اور امن منصوبے کے باوجود جس میں فائربندی کی اپیل کی گئی ہے، وہ منحرفین کے خلاف جاری پکڑ دھکڑ کی مہلک کارروائیاں ختم کرنے کا انتہائی معمولی ارادہ رکھتے ہیں۔
مسٹر اسد نے اندورن ملک اپنی مخالفت انتہائی کم ہونے پر اصرار کرتے ہوئے ملک میں جاری شورش کا الزام ان غیر ملکی عسکریت پسندوں پر لگایا جو انہیں اقتدار سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔
مسٹر اسد نے اقوام متحدہ کے شام میں تعینات مبصروں پر بھی یہ الزام لگایا کہ وہ سرکاری فورسز کی کارروائیوں پر غیر منصفانہ انداز میں تنقید کرنے ہبں اور دہشت گردوں کے حملوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
شام میں اقوام متحدہ کے امن کاروں کی موجودگی سے ملک میں جاری خون خرابہ روکنے میں بہت معمولی کامیابی ہوئی ہے۔