صدر بشارالاسد نے تسلیم کیا کہ شام میں تفریق ہے۔ لیکن انھوں نے اس بات سے انکار کیا کہ ان کے اقتدار کے خلاف ملک میں 19 ماہ سے زائد عرصے سے جاری شورش درحقیقت خانہ جنگی ہے۔
شام کے صدر بشار الاسد کا اصرار ہے کہ انھیں اب بھی عوام اور فوج کی حمایت حاصل ہے۔
ان کا یہ موقف ایسے وقت سامنے آیا جب شامی فوج کے بہت سے اعلیٰ افسران کے منحرف ہو کر ترکی پہنچنے کی خبریں منظر عام پر آ رہی ہیں۔
روس کے ایک ٹی وی ’ریشین ٹو ڈے ٹیلی ویژن‘ پر جمعہ کو صدر اسد کے انٹرویو کا ایک حصہ نشر کیا گیا جس میں انھوں نے تسلیم کیا کہ ملک میں تفریق ہے۔ لیکن شام کے صدر نے اس بات سے انکار کیا کہ ان کے اقتدار کے خلاف ملک میں 19 ماہ سے زائد عرصے سے جاری شورش درحقیقت خانہ جنگی ہے۔
’’مسئلہ میرے اور عوام کے درمیان نہیں ہے۔ مجھے عوام سے کوئی مسئلہ نہیں کیوں کہ امریکہ میرے خلاف ہے، مغربی ممالک اور بہت سے عرب ملک بشمول ترکی میرے خلاف ہیں۔ اگر شام کے لوگ میرے خلاف ہیں تو میں یہاں کیسے ہو سکتا تھا۔‘‘
دریں اثناء سرکاری فوج نے ملک کے مختلف حصوں میں باغیوں کے ٹھکانوں پر جمعہ کو بمباری کی۔ ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے نے کہا ہے کہ شامی فوج کے کم از کم 26 افسران بشمول دو جرنیلوں اور کرنل کے عہدے کے 11 افسر منحرف ہو کر سرحد عبور کر کے ترکی آئے ہیں۔
ترکی کے عہدیداروں کے مطابق لڑائی سے جان بچا کر جمعرات سے اب تک شام کے آٹھ ہزار شہری سرحد عبور کر کے ان کے ملک میں داخل ہوئے ہیں اور ترکی میں پناہ لینے والے شامی باشندوں کی تعداد لگ بھگ ایک لاکھ 20 ہزار ہو گئی ہے۔
اُدھر شام کی منقسم حزب اختلاف کے گروہوں کا قطر میں اجلاس ہو رہا ہے جس میں اطلاعات کے مطابق متحدہ اپوزیشن کی تشکیل کی جانب پیش رفت ہوئی ہے۔
ان کا یہ موقف ایسے وقت سامنے آیا جب شامی فوج کے بہت سے اعلیٰ افسران کے منحرف ہو کر ترکی پہنچنے کی خبریں منظر عام پر آ رہی ہیں۔
روس کے ایک ٹی وی ’ریشین ٹو ڈے ٹیلی ویژن‘ پر جمعہ کو صدر اسد کے انٹرویو کا ایک حصہ نشر کیا گیا جس میں انھوں نے تسلیم کیا کہ ملک میں تفریق ہے۔ لیکن شام کے صدر نے اس بات سے انکار کیا کہ ان کے اقتدار کے خلاف ملک میں 19 ماہ سے زائد عرصے سے جاری شورش درحقیقت خانہ جنگی ہے۔
’’مسئلہ میرے اور عوام کے درمیان نہیں ہے۔ مجھے عوام سے کوئی مسئلہ نہیں کیوں کہ امریکہ میرے خلاف ہے، مغربی ممالک اور بہت سے عرب ملک بشمول ترکی میرے خلاف ہیں۔ اگر شام کے لوگ میرے خلاف ہیں تو میں یہاں کیسے ہو سکتا تھا۔‘‘
دریں اثناء سرکاری فوج نے ملک کے مختلف حصوں میں باغیوں کے ٹھکانوں پر جمعہ کو بمباری کی۔ ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے نے کہا ہے کہ شامی فوج کے کم از کم 26 افسران بشمول دو جرنیلوں اور کرنل کے عہدے کے 11 افسر منحرف ہو کر سرحد عبور کر کے ترکی آئے ہیں۔
ترکی کے عہدیداروں کے مطابق لڑائی سے جان بچا کر جمعرات سے اب تک شام کے آٹھ ہزار شہری سرحد عبور کر کے ان کے ملک میں داخل ہوئے ہیں اور ترکی میں پناہ لینے والے شامی باشندوں کی تعداد لگ بھگ ایک لاکھ 20 ہزار ہو گئی ہے۔
اُدھر شام کی منقسم حزب اختلاف کے گروہوں کا قطر میں اجلاس ہو رہا ہے جس میں اطلاعات کے مطابق متحدہ اپوزیشن کی تشکیل کی جانب پیش رفت ہوئی ہے۔