ہیومن راٹس واچ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا کہ جائے وقوع کی تصاویر، وڈیوز، متاثرین اور ڈاکٹروں کے انٹریوز کے علاوہ جس طرح کے راکٹ اس حملے میں استعمال ہوئے، یہ سب اس حملے میں سرکاری افواج کے ملوث ہونے کے عکاسی کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم نے کہا ہے کہ شام کی سکیورٹی فورسز گزشتہ ماہ دمشق کے قریب ہونے والے کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کی ’’تقریباً یقینی طور پر ذمہ دار‘‘ ہیں۔
اس حملے میں لگ بھگ 1,400 افراد ہلاک ہوئے تھے اور یہ اس معاملے پر ردعمل سے متعلق عالمی برادری میں بحث کے آغاز کا باعث بنا۔ امریکہ کیمیائی ہتھیاروں کے میبنہ استعمال پر شام کے خلاف فوجی کارروائی پر غور کر رہا ہے۔
ہیومن راٹس واچ نے منگل کو اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا کہ جائے وقوع کی تصاویر، وڈیوز، متاثرین اور ڈاکٹروں کے انٹریوز کے علاوہ جس طرح کے راکٹ اس حملے میں استعمال ہوئے، یہ سب اس حملے میں سرکاری افواج کے ملوث ہونے کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کے بقول باغیوں پر اس کارروائی کا الزام دستیاب شواہد سے مطابقت نہیں رکھتے۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے کہ جب عالمی رہنما شام کے اتحادی ملک روس کی اس تجویز کی حمایت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں جس میں کہا گیا کہ اس کے کیمیائی ہتھیاروں کو بین الاقوامی کنٹرول میں لے لیا جائے۔
شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم نے اس تجویز پر اتفاق کرتے ہوئے ایک روز قبل کہا تھا کہ یہ ان کے بقول امریکی ’جارحیت‘ سے بچنے کا راستہ ہے۔ شام کے ایک اور اتحادی ایران نے بھی منگل کو اس تجویز کا خیر مقدم کیا۔
شام میں حزب مخالف ’’سیریئن نیشنل کوالیشن‘‘ کے ایک ترجمان خالد صالح نے اس تجویز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صدر بشار الاسد بظاہر اس پر عمل درآمد نہیں کریں گے اور وہ اسے ’’مزید وقت حاصل‘‘ کرنے کے حربے کے طور پر استعمال کریں گے۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اس منصوبے کو خوش آئند قرار دیا ہے لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا کو اس بات کی یقین دہانی کی ضرورت ہے کہ یہ ’’ توجہ ہٹانے کا حربہ‘‘ نہ ہو۔ برطانوی پارلیمنٹ شام کے خلاف فوجی کارروائی کی قرارداد پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔
امریکہ اور فرانس کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال پر شام کے خلاف فضائی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
شام کی حکومت گزشتہ ماہ کے اواخر میں دمشق کے قریب کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق الزام کو مسترد کر چکی ہے۔
اس حملے میں لگ بھگ 1,400 افراد ہلاک ہوئے تھے اور یہ اس معاملے پر ردعمل سے متعلق عالمی برادری میں بحث کے آغاز کا باعث بنا۔ امریکہ کیمیائی ہتھیاروں کے میبنہ استعمال پر شام کے خلاف فوجی کارروائی پر غور کر رہا ہے۔
ہیومن راٹس واچ نے منگل کو اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا کہ جائے وقوع کی تصاویر، وڈیوز، متاثرین اور ڈاکٹروں کے انٹریوز کے علاوہ جس طرح کے راکٹ اس حملے میں استعمال ہوئے، یہ سب اس حملے میں سرکاری افواج کے ملوث ہونے کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کے بقول باغیوں پر اس کارروائی کا الزام دستیاب شواہد سے مطابقت نہیں رکھتے۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے کہ جب عالمی رہنما شام کے اتحادی ملک روس کی اس تجویز کی حمایت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں جس میں کہا گیا کہ اس کے کیمیائی ہتھیاروں کو بین الاقوامی کنٹرول میں لے لیا جائے۔
شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم نے اس تجویز پر اتفاق کرتے ہوئے ایک روز قبل کہا تھا کہ یہ ان کے بقول امریکی ’جارحیت‘ سے بچنے کا راستہ ہے۔ شام کے ایک اور اتحادی ایران نے بھی منگل کو اس تجویز کا خیر مقدم کیا۔
شام میں حزب مخالف ’’سیریئن نیشنل کوالیشن‘‘ کے ایک ترجمان خالد صالح نے اس تجویز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صدر بشار الاسد بظاہر اس پر عمل درآمد نہیں کریں گے اور وہ اسے ’’مزید وقت حاصل‘‘ کرنے کے حربے کے طور پر استعمال کریں گے۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اس منصوبے کو خوش آئند قرار دیا ہے لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا کو اس بات کی یقین دہانی کی ضرورت ہے کہ یہ ’’ توجہ ہٹانے کا حربہ‘‘ نہ ہو۔ برطانوی پارلیمنٹ شام کے خلاف فوجی کارروائی کی قرارداد پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔
امریکہ اور فرانس کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال پر شام کے خلاف فضائی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
شام کی حکومت گزشتہ ماہ کے اواخر میں دمشق کے قریب کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق الزام کو مسترد کر چکی ہے۔