بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی کے صدر جیکب کیلن برگر نے کہاہے کہ انہوں نےپیر کو شام کی حکومت سے محصور شہر حمص تک رسائی دینے کی ایک اور اپیل کی ہے تاکہ وہاں سے زخمیوں اور بیماروں کو نکالا جاسکے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ زندگیاں بچانے کے اپنے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے انہیں حکومت مخالف گروپوں سے بھی تعاون کے معاہدے کی ضرورت ہے۔
پچھلے ہفتے ریڈ کراس نے ان لوگوں کو جنہیں طبی دیکھ بھال کی ضرورت ہے شہر سے نکالنے اور محصورین کی مدد کے لیے حمص میں داخلے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیاتھا۔
ریڈکراس کے عالمی ادارے کے صدر جیکب کیلن برگر کا کہناہے کہ ان کا خیال تھا کہ ریڈکراس اور شام کی ریڈ کریسنٹ کے امدادی کارکنوں کو اجازت مل جائے گی، لیکن ان کا کہناہے کہ کئی وجوہات کی بنا پر ایسا نہ ہوسکا۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حمص کے لیے انسانی بھلائی کی امدادی پر فوری توجہ کی ضرورت ہے لیکن ریڈکراس کے عالمی ادارے کو اپنی امدادی کارروائیوں کے لیے تمام فریقوں سے معاہدے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہناہے کہ موجودہ صورت حال جیسی جگہ پر جانے کے لیے تشدد سے منسلک تمام فریقوں کے ساتھ ایک واضح معاہدہ کرنا ضروری ہے ۔ میں یہ واضح کردوں کہ ایسا معاہدہ جس کےتحت آپ شہر میں داخل ہوسکیں اور اپنا کام کرسکیں اور دوسری بات یہ ہے کہ ہم پر سیکیورٹی کے حوالے سے اپنے عملے کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔
کیلن برگ کہتے ہیں کہ آئی سی ایچ آر کو یہ تعین کرنے کے لیے اپنے عملے کو درپیش سیکیورٹی خطرات کا بھی جائزہ لینا ہے کہ آیا ان کے لیے متاثرہ علاقے میں جانا کافی محفوظ ہے؟
ان کا کہنا ہے کہ حمص اور شام کے فساد زدہ دوسرے علاقوں میں بارودی سرنگوں اور دوسرے خطرات موجود ہیں۔ انہوں نے جمعے کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ریڈ کریسنٹ کے ایک رضاکار کو امدادی مشن کے دوران گولی مار کر ہلاک کردیا گیا ۔
آئی سی ایچ آر کے سربراہ نے شام کے موضوع پر گفتگو کے علاوہ اپنے ادارے کی گذشتہ برس کی رپورٹ بھی پیش کی۔ جس میں 2011ء کو ایک ایسا سال قرار دیا گیا ہے جس میں کئی پیچیدہ اور غیر متوقع بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں جاری مسلح تنازعات اور پرتشدد صورت حال کے ساتھ بڑی نوعیت کے بحران مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں رونما ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق آئی سی ایچ آر نے گذشتہ سال 80 ممالک میں انسانی بھلائی کی مہمات پر لگ بھگ ایک ارب 20 کروڑ ڈالر صرف کیے۔
رپورٹ میں صومالیہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس جنگ زدہ علاقے میں خوراک کی شدید قلت کے باعث سب سے بڑا امدادی مشن چلانا پڑا۔
جب کہ دوسری بڑی امدادی مہمات افغانستان، عراق ، سوڈان ، یمن اور لیبیا میں چلائی گئیں۔
ریڈکراس کے بین الاقوامی ادارے کے سربراہ کیلن برگر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صومالیہ میں اب ایک سال پہلے کے مقابلے میں میں خوراک کی صورت حال بہتر ہے۔ لیکن 30 فی صد آبادی کو اب بھی خوراک کی شدید قلت کا سامناہے۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی صومالیہ میں ، جہاں الشباب کا کنٹرول ہے، غذائی صورت حال انتہائی خراب ہے کیونکہ الشباب کے عسکریت پسند امدادی تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔