شام میں سرگرم کارکنوں اور کرد عہدیداروں کے مطابق سرحدی شہر کوبانی سے دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے کرد ملیشیاء لڑائی میں مصروف ہے۔
امریکہ کی زیرقیادت اتحاد کی جانب سے جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر حملوں کے باوجود کوبانی میں لڑائی میں شدت آئی ہے۔
کرد عہدیداروں کے مطابق ہفتہ کو جھڑپیں کوبانی کے مشرقی قصبوں میں ہوئیں اور اُن کے بقول صورت حال ’گمبھیر‘ ہے۔
برطانیہ میں قائم تنظیم ’سیرئین آبزرویٹری فار ہیومین رائٹس‘ کے مطابق اگرچہ کرد ملیشیاء بھرپور طریقے سے مقابلہ کر رہی ہیں لیکن جنگجوؤں کی طرف سے اُنھیں سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔
ستمبر کے وسط سے جب سے دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے کوبانی پر حملہ کیا، اب تک یہاں کم از کم 500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ دو لاکھ سے زائد کو مجبوراً ترکی میں پناہ کے لیے داخل ہونا پڑا۔
شام کے لیے اقوام متحدہ کے سفیر سٹافین ڈی مصراتا نے متنبہ کیا ہے کہ شہر میں سات سو شہریوں کو خطرہ ہے۔ اُنھوں نے ترکی پر زور دیا کہ وہ کرد رضا کاروں کو کوبانی میں لڑنے کی اجازت دیں۔
ترکی کی کرد آبادی نے انقرہ کے اس موقف پر حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کی مدد کر رہی ہے۔
کرد علیحدگی پسند جنہیں ’پی کے کے‘ کے نام سے جانا جاتا ہے وہ کئی دہائیوں سے حکومت کے خلاف لڑتے رہے ہیں اور گزشتہ سال ہی اُن کے اور حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا۔
ترکی کا کہنا ہے کہ شام میں مداخلت نیٹو کے تمام اتحادی ممالک کو مشترکہ طور پر کرنی چاہیئے اور شام کے صدر بشار الاسد کی فورسز کے خلاف بھی کارروائی اس کا حصہ ہو۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ صورت حال پیچیدہ ہے اور اس پر ردعمل آسان نہیں ہے۔