شام کا بحران اور لبنان

لبنان

گذشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کے سیاسی امور کے نئے چیف جیفری فلٹ مین نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ شام میں حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں، اور اس کے ساتھ ہی لبنان میں بھی صورتِ حال نازک ہورہی ہے
یہ اندیشے بڑھتے جا رہے ہیں کہ شام کی جنگ کہیں ہمسایہ ملک لبنان کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے جہاں ایک عرصے سے حکومت اسد کے حامی اور مخالف کیمپوں میں بٹی ہوئی ہے۔ گذشتہ ہفتے، امریکہ اور اقوامِ متحدہ دونوں نے لبنان میں بڑھتے ہوئے عدم استحکام پر تشویش کا اظہار کیا۔

گذشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کے سیاسی امور کے نئے چیف جیفری فلٹ مین نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ شام میں حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں، اور اس کے ساتھ ہی لبنان میں صورتِ حال نازک ہورہی ہے ۔ ان کا کہناہے تھا کہ شمالی اور مشرقی لبنان میں سرحد پار سے گولہ باری جاری ہے جس سے کئی لوگ زخمی ہوئے ہیں ۔ پورے ملک میں داخلی مسائل اور سیکورٹی کے بارے میں بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے، اور شام کے واقعات سے اس تشویش میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔

لبنان میں حال ہی میں جوابی کارروائی کے طور پر، شیعوں کے ایک ممتاز قبیلے کے ہاتھوں درجنوں شامی شہریوں اور ایک ترک کاروباری شخصیت کے اغوا کی وارداتیں ہوئی ہیں ۔

اس میں ایک سابق عیسائی وزیر کی گرفتاری کا اضافہ کر لیجیئے جن کے شام کے صدر بشار الاسد کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔

اس مہینے مائیکل سماہاپر دھماکہ خیز مادوں کی ترسیل کا الزام عائد کیا گیا ۔ مبینہ طور پر ان کا مقصد یہ تھا کہ سنی مسلمانوں کے علاقے کے دورے پر آئے ہوئے مارونٹی کرسچین کمیونٹی کے سربراہ کو دھماکے سے اڑا دیا جائے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو سنی مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جنگ شروع ہو جاتی ۔

لیکن تجزیہ کار کہتےہیں کہ کئی ایسے عوامل موجود ہیں جن کی وجہ سے چالیس لاکھ کی آبادی کا یہ ملک ان ہولناک واقعات سے بچ جائے گا جن کا تجربہ اسے خود اپنی 1970 اور 1980 کی خانہ جنگی کے دوران ہو چکا ہے ۔

کارنیگی انڈومنٹ کے مڈل ایسٹ سینٹر کے ڈائریکٹر پال سالم کہتے ہیں کہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کے وجہ سے لبنان اس جھگڑے میں الجھنے سے بچ جائے گا ۔ اول تو یہ کہ مختلف مذہبی گروپوں اور آبادیوں کا مفاد اسی میں ہے کہ حکومت قائم رہے۔

لبنان کی امریکن یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسرامداد سلامی کہتے ہیں کہ شام کے بارے میں بین الاقوامی قراردادوں پر تیزی سے عمل در آمد سے لبنان کے استحکام کو یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے ۔ ان کا کہناتھا کہ شام کا جھگڑا جتنا زیادہ طول پکڑتا جائے گا، اتنے ہی زیادہ انتہا پسند اس میں شامل ہوتے جائیں گے، اور یہ تنازعہ اسی قدر فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرتا جائے گا ۔

سنیوں اور عیسائیوں کے درمیان لڑائی شروع کرانے کی مبینہ سازش کے علاوہ، گذشتہ چند ہفتوں کے دوران، طرابلس کے شمالی شہر میں سنیوں اور علویوں کے درمیان خونریز جھڑپیں ہوئی ہیں اور امکان یہی ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

لبنان کے سب سے طاقتور سیاسی گروپوں میں شیعہ ملیشیا اور سیاسی تحریک حز ب اللہ شامل ہے، جو موجودہ حکومت پر چھائی ہوئی ہے ۔ حزب اللہ کے لیڈر شام کے واقعات پر کڑی نظر رکھے ہوئےہیں اور انھوں نے ملک کے اندر یا اپنے کٹر دشمن ملک، اسرائیل کے خلاف کسی بھی اشتعال انگیز کارروائی سے پر ہیز کیا ہے ۔

اب جب کہ صدر اسد خود اپنی حکومت پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے کی جدو جہد کر رہے ہیں، ماہرین کہتے ہیں کہ وہ لبنان میں اپنا اثر و رسوخ باقی رکھنے کے لیے بھی بے قرار ہیں۔ لبنان وہ ملک ہے جس پر شامی فوجوں نے 30 برس تک قبضہ کیے رکھا اور 2005 میں اسے چھوڑا ۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ مسٹر اسد کی یہ کوشش کہ وہ اپنی حکومت کے ساتھ اس ملک کو بھی نیچے گرا دیں، کامیاب نہیں ہو گی۔