شام کے لیے اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے نمائندہ خصوصی کوفی عنان نے کہا ہے کہ شامی سیکیورٹی اداروں کی جانب سے بغاوت والے علاقوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کی گرفتاریوں اور انہیں اذیتیں دینے کی مہم میں شدت آگئی ہے۔
مغربی ممالک کے سفارت کاروں کے مطابق کوفی عنان نے یہ بیان منگل کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے بند کمرہ اجلاس میں جنیوا سے بذریعہ 'ویڈیو کانفرنس' خطاب کرتے ہوئے دیا۔
اپنے خطاب کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کوفی عنان کا مزید کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ شام کو خانہ جنگی کا شکار نہیں ہونے دےگی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا تجویز کردہ امن منصوبہ خانہ جنگی سے بچنے کا شام کو دستیاب آخری موقع ہوسکتا ہے۔
اپنی گفتگو میں خصوصی ایلچی نے کہا کہ شام میں جنگی بندی کے گزشتہ ماہ نفاذ کے بعد سے شامی افواج کی جانب سے باغیوں اور حزبِ اختلاف کے حامی علاقوں پر بمباری میں کمی آئی ہے۔
لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ شامی سیکیورٹی ادارے بدستور ان علاقوں میں یا ان کے آس پاس سرگرم ہیں جو شامی صدر بشار الاسد کے خلاف گزشتہ 14 ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کا مرکز رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ کے غیر مسلح مبصرین کا ایک مختصر وفد حکومت اور باغیوں کے درمیان 12 اپریل سے نافذ جنگ بندی پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے شام میں تعینات ہے۔
عالمی کوششوں سے طے پانے والے اس معاہدے میں شامی فوجی دستوں کے شہری علاقوں سے انخلا کی شرط بھی عائد کی گئی تھی لیکن شام کی حکومت کا اصرار ہے کہ اس کے فوجی "دہشت گردوں" کے حملوں سے عام شہریوں کا دفاع کرنے کی غرض سے آبادیوں میں موجود ہیں۔
کوفی عنان کی جانب سے شام کی تازہ ترین صورتِ حال پر سلامتی کونسل کو بریفنگ دیے جانے کے بعد اقوامِ متحدہ میں شام کے سفیر بشار جعفری نے الزام عائد کیا ہے کہ بعض عرب ممالک شامی حزبِ اختلاف کی حمایت اور اس کے جنگجووں کو اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔
شامی سفیر نے واضح کیا کہ ان کی حکومت کوفی عنان کے تجویز کردہ امن منصوبے پر عمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہے۔
دریں اثنا، شامی حزبِ اختلاف کےکارکنوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سرکاری افواج کی پرتشد کاروائیوں میں منگل کو مزید چھ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ ہلاکتوں کے ان دعووں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔
اقوامِ متحدہ نے شام میں جنگ بندی کی نگرانی کے لیے اس وقت 60 فوجی مبصر تعینات کر رکھے ہیں جن کی تعداد رواں ماہ کے اختتام تک بڑھا کر 300کردی جائے گی۔