تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ شام میں تیل کی سب سے اہم صنعت پوری طرح تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی اور بند ہونے کو ہے۔
دمشق میں سیاسی تجزیہ کار، افیف دیلا کے بقول، ’ہمیں تیل کی پیدوار کی شدید ضرورت ہے، تاکہ معیشت کا پہیہ آگے بڑھ سکے۔ لیکن، میرے خیال میں عام طور پر ہم ان دہشت گرد گروہوں کی موجودگی میں دوبارہ سابقہ سطح پر پیداوار کے قابل نہیں رہے‘۔
اُنھوں نے مزید کہا ہے کہ جب تک یہ جنگ جاری ہے، ’ہم معیشت کے کسی بھی شعبے کو مکمل طور پر بحال نہیں کرسکتے‘۔
شام میں جنگ کے آغاز 2011ء سے حکومتی تیل کی پیداور تقریباً بند ہوچکی ہے اور جنگ سے پہلے کی سطح کی صرف تین فیصد پیداوار باقی رہ گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں چند مقامی حکام نے ملک کے سب سے بڑی آئل فیلڈ کو دوبارہ کھولا ہے، جو ملک کی مختصر پیدوار کو دوگنا کرنے کی باعث بنی ہے۔
ایک اور تجزیہ نگار اور ’گلف رسرچ سنٹر‘، دبئی کے ڈائریکٹر مصطفیٰ الانی کے مطابق، ان اقدام کے باوجود شام تیل کی صنعت کی بحالی کے قریب بھی نہیں پہنچا، اور صرف قریبی گاؤں کی ضرورت کو پورا کرنے کے قابل ہوا ہے۔
انھوں نے واضح کیا کہ ’یہ صرف مقامی سطح کی تجارت ہے اور تیل کی پیدوار کا انتہائی فرسودہ طریقہ، اس میں استعمال ہونے والے زیادہ تر بڑے آلات تباہ ہوچکے ہیں۔ اس لئے، ہم صورتحال میں تبدیلی نہیں دیکھ رہے۔ یہ بہت معمولی سے تبدیلی ہوسکتی ہے۔‘
یہاں تک کے جنگجو جو خود کو دولت اسلامیہ کہلاتے ہیں، اُنھوں نے ہوائی حملوں کے باعث غیر قانونی پیداوار اور فروخت کم کردی ہے۔
شام میں گزشتہ چار برسوں سے جاری جنگ کی وجہ سے اب تک 2 لاکھ افراد ہلاک جب کہ ایک کروڑ 20 لاکھ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔
الانی کا کہنا ہے کہ شام واقعی کبھی تیل میں خود کفیل تھا، لیکن اب اس کا انحصار مکمل طور پر درآمدی تیل پر ہے۔
بقول اُن کے، ’شام تقریباً خود کفیل تھا۔ لیکن اب اپنا کنڑول کھونے کے بعد، ہر قطرے کی زیادہ تر ایران سے درآمد پر انحصار کرتا ہے‘۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ ’نہ حکومت اور نہ ہی غیر ملکی کمپنیاں یا مسلح گروپ طویل عرصے سے شام کے تیل سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جب بھی یہ جنگ ختم ہوئی شائد شام دوبارہ اپنی ضروریات کے لئے تیل کی پیداوار شروع کرسکے۔ لیکن، شام کی برآمدی صنعت ماضی کا قصہ بن چکی ہے‘۔
تجزیہ نگار دالا کے مطابق، دمشق میں درآمدی تیل نے روشنیاں قائم رکھی ہوئی ہیں۔ لیکن، مکین بڑی مشکلوں سے اس جنگ میں جی رہے ہیں، جس میں 60 ممالک کود پڑے ہیں۔ یہاں کی سب سے اہم چیز کیا ہے اس کا جواب ہے: ’زندہ بچ جانا‘۔