دوما میں داخل ہونے کے جنوبی راستے میں بہت سی چوکیاں قائم ہیں اور جوں ہی کاریں اور ٹرک شہر کے قریب پہنچتے ہیں تو سکیورٹی کے لوگ ان کی تلاشی لیتے ہیں جب کہ دوسرے سپاہی ریت کے بوروں کے پیچھے مورچوں میں اپنے اسلحہ سمیت چا ق و چوبند کھڑے رہتے ہیں۔
مہینوں سے سخت کشیدگی کا شکار ہے۔ اس شہر میں جو دارالحکومت سے زیادہ دور نہیں، حالات مسلسل خراب ہیں۔ لیکن لوگوں کو بہر حال زندہ بھی رہنا ہے۔ چیک پوائنٹ سے کچھ فاصلے پرایک لمبی دیوار پر حکومت مخالف نعرے لکھے ہوئے ہیں جن کو چھپانے کے لیے بڑی عجلت میں اس دیوار پر رنگ کیا گیا ہے۔ دوکانوں پر بھی گولیوں کے نشان موجود ہیں۔
ایک دوکاندار دائیں بائیں دیکھتا ہے اور پھر مایوسی کے عالم میں کہتا ہے کہ ’’آپ خود ہی دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں جنون اور پاگل پن کی کوئی کمی نہیں۔‘‘
اس کے دوست محمد، پاس ہی کھڑے ہوئے سرکاری اہلکار کو نظر انداز کرتے ہوئے وضاحت کرتے ہیں کہ ’’مظاہرین شام کی نمازوں کے بعد نکل آتے ہیں اور جلد ہی سکیورٹی فورسز کے لوگ بھی وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ وہ اندھا دھند گولیاں چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ ایسی کوئی کوشش نہیں کرتے کہ بوڑھے، بچےیا عورتیں ان کی گولیوں کی زد میں نہ آنے پائیں۔‘‘
اندھیرا ہونے کے بعد کیا ہوگا، اس سے صرف مظاہرین ہی خوف زدہ نہیں۔ چیک پوائنٹ پر، ایک نوجوان گارڈ کھڑا ہے۔ چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی ہے لیکن سخت سردی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’دن کے وقت تو امن رہتا ہے، لیکن جب سورج غروب ہونے لگتا ہے تو دہشت گرد گولیاں چلانا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘
اس گارڈ کی نظر میں، اور وہ جس حکومت کا ملازم ہے اس کے خیال میں، مخالفین انتہا پسند ہیں اور بغاوت ملک کے خلاف ایک سازش ہے جسے بیرونی ملکوں نے پھیلایا ہے۔ گارڈ کہتا ہے کہ اس بغاوت میں شرابی اور منشیات کا کاروبار کرنے والے بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔
سرکاری عہدے دار کہتے ہیں کہ اس شہر پر سلفیوں کا غلبہ ہے۔ بظاہر یہاں اسلامی بنیاد پرستی کی کوئی علامتیں نظر نہیں آتیں۔ لیکن، کم از کم دارالحکومت کے مقابلے میں، دوما خاصا قدامت پسند شہر معلوم ہوتا ہے ۔بہت سی عورتیں آنکھوں سمیت، سر سے پیر تک سیاہ چادر سے ڈھکی ہوئی ہیں۔
ایک نوجوان با پردہ عورت انٹرویو دینے سے انکار کرتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ کسی رپورٹر سے بات نہیں کر سکتی، اگرچہ اس کا چہرہ پوری طرح ڈھکا ہوا ہے۔ وہ ایک مختصر سا تبصرہ کرتی ہے کہ صورتِ حال بہت خراب ہے ۔
سڑک پر تھوڑا آگے، ایک شخص ٹرک کی کھڑکی کھولتا ہے اور ایک شہید کے جنازے کی اطلاع دیتا ہے۔ شہر میں رہنے والا یہ شخص ہنگاموں میں ہلاک ہوا ہے۔ اس کے جنازے کا جلوس جلد ہی نکلنے والا ہے ۔
محمد کہتے ہیں کہ اس جنازے کی وجہ سے سکیورٹی فورسز مزید گولیاں چلائیں گی۔
شام کی بغاوت ایسی جنگ ہے جس میں دونوں فریقوں کا نقصان ہو رہا ہے لیکن کوئی بھی فریق شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ آئندہ کیا ہوگا، محمد کا کہنا ہے کہ یہ کوئی نہیں جانتا۔
دوما میں داخل ہونے کے جنوبی راستے میں بہت سی چوکیاں قائم ہیں۔ کاریں اور ٹرک شہر کے قریب پہنچتے ہیں تو سکیورٹی کے لوگ ان کی تلاشی لیتے ہیں جب کہ دوسرے سپاہی ریت کے بوروں کے پیچھے مورچوں میں اپنے اسلحہ سمیت چا ق و چوبند کھڑے ہیں۔
مہینوں سے یہاں سخت کشیدگی ہے۔ اس شہر میں جو دارالحکومت سے زیادہ دور نہیں، حالات مسلسل خراب ہیں۔ لیکن لوگوں کو بہر حال زندہ بھی رہنا ہے ۔ چیک پوائنٹ سے کچھ فاصلے پر، بچے ایک لمبی دیوار کے پاس سے گزر رہے ہیں جس پر حکومت مخالف نعرے لکھے ہوئے ہیں۔ ان نعروں کو چھپانے کے لیے بڑی عجلت میں اس دیوار پر رنگ کیا گیا ہے ۔ دوکانیں کھلی ہیں، اگرچہ بعض پر گولیوں کے نشان نظر آ رہے ہیں۔
ایک دوکاندار دائیں بائیں دیکھتا ہے اور پھر مایوسی کے عالم میں کہتا ہے کہ ’’آپ خود ہی دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں جنون اور پاگل پن کی کوئی کمی نہیں۔ اس کے دوست محمد، پاس ہی کھڑے ہوئے سرکاری اہلکار کو نظر انداز کرتے ہوئے وضاحت کرتے ہیں کہ ’’مظاہرین شام کی نمازوں کے بعد نکل آتے ہیں اور جلد ہی سکیورٹی فورسز کے لوگ بھی وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ وہ اندھا دھند گولیاں چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ ایسی کوئی کوشش نہیں کرتے کہ بوڑھے، بچےیا عورتیں ان کی گولیوں کی زد میں نہ آنے پائیں۔‘‘
اندھیرا ہونے کے بعد کیا ہوگا، اس سے صرف مظاہرین ہی خوف زدہ نہیں۔ چیک پوائنٹ پر، ایک نوجوان گارڈ کھڑا ہے۔ چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی ہے لیکن سخت سردی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’دن کے وقت تو امن رہتا ہے، لیکن جب سورج غروب ہونے لگتا ہے تو دہشت گرد گولیاں چلانا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘
اس گارڈ کی نظر میں، اور وہ جس حکومت کا ملازم ہے اس کے خیال میں، مخالفین انتہا پسند ہیں اور بغاوت ملک کے خلاف ایک سازش ہے جسے بیرونی ملکوں نے پھیلایا ہے۔ گارڈ کہتا ہے کہ اس بغاوت میں شرابی اور منشیات کا کاروبار کرنے والے بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔
سرکاری عہدے دار کہتے ہیں کہ اس شہر پر سلفیوں کا غلبہ ہے۔ بظاہر یہاں اسلامی بنیاد پرستی کی کوئی علامتیں نظر نہیں آتیں۔ لیکن، کم از کم دارالحکومت کے مقابلے میں، دوما خاصا قدامت پسند شہر معلوم ہوتا ہے ۔بہت سی عورتیں آنکھوں سمیت، سر سے پیر تک سیاہ چادر سے ڈھکی ہوئی ہیں۔
ایک نوجوان با پردہ عورت انٹرویو دینے سے انکار کرتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ کسی رپورٹر سے بات نہیں کر سکتی، اگرچہ اس کا چہرہ پوری طرح ڈھکا ہوا ہے۔ وہ ایک مختصر سا تبصرہ کرتی ہے کہ صورتِ حال بہت خراب ہے ۔
سڑک پر تھوڑا آگے، ایک شخص ٹرک کی کھڑکی کھولتا ہے اور ایک شہید کے جنازے کی اطلاع دیتا ہے۔ شہر میں رہنے والا یہ شخص ہنگاموں میں ہلاک ہوا ہے۔ اس کے جنازے کا جلوس جلد ہی نکلنے والا ہے ۔
محمد کہتے ہیں کہ اس جنازے کی وجہ سے سکیورٹی فورسز مزید گولیاں چلائیں گی۔
شام کی بغاوت ایسی جنگ ہے جس میں دونوں فریقوں کا نقصان ہو رہا ہے لیکن کوئی بھی فریق شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ آئندہ کیا ہوگا، محمد کا کہنا ہے کہ یہ کوئی نہیں جانتا۔