جمعہ کو شام کے مختلف شہروں میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں پر سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے کم از کم چھ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
حکومت مخالف سیاسی کارکنان کے بقول سیکیورٹی فورسز نے دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقوں سمیت کئی دیگر شہروں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے شرکاء کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔
تشدد کے تازہ ترین واقعات ایک ایسے روز پیش آئے ہیں جب انسانی حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ ترین عہدیدار نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شام میں گزشتہ سات ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد تین ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔
عالمی ادارے کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نیوی پِلے نے جمعہ کے روز خبردار کیا کہ شام کی حکومت کی بے رحمانہ کارروائیاں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں ملک کو خانہ جنگی میں جھونک سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شام کی حکومت کی طرف سے کی جانے والی پرتشدد کارروائیوں میں ہلاک ہونے والوں میں 187 بچے بھی شامل ہیں جب کہ صرف گزشتہ دس روز میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 100 سے متجاوز ہے۔
اس سے قبل جمعرات کو مقامی سیاسی کارکنان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ سیکیورٹی فورسز اور مسلح افراد کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 19 افراد مارے گئے ہیں۔ گمان کیا جارہا ہے کہ مسلح افراد سرکاری فوج سے بغاوت کرنے والے فوجی ہیں۔
جمعرات کو تشدد کے بیشتر واقعات شمالی صوبے اِدلب میں پیش آئے جہاں سرکاری سیکیورٹی فورسز باغی فوجیوں اور مسلح افراد سے جھڑپوں میں مصروف ہیں۔
شام کی حکومت صدر بشار الاسد کی اقتدار سے رخصتی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کے خلاف بدترین ریاستی طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ شام کی حکومت کے ان اقدامات پر اسے عالمی برادری کی شدید تنقید کا بھی سامنا ہے جبکہ اس کے خلاف اقتصادی پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔
جمعرات کو یورپی یونین نے شام کے سب سے بڑے بینک کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان بھی کیا۔
حکومتِ شام کا کہنا ہے کہ تشدد کی کارروائیوں کا ذمہ دار، اُس کے بقول، وہ مسلح جتھےاور دہشت گرد ہیں جِنھیں غیر ملکی سازشی عناصر کی حمایت حاصل ہے