اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی رپورٹ کے مطابق، شام کے اندر یکم مارچ 2011 سے، خانہ جنگی کے آغاز سے مارچ 2021 کے آخر تک، تین لاکھ سے زیادہ شہری مارے گئے ہیں۔
جینوا سے ہماری نامہ نگار لیزا شلائین نے خبر دی ہے کہ دستیاب اعداد و شمار پر مبنی ایک نئے شماریاتی تجزیے کی بنیاد پر اس تعداد کا اعلان کیا گیا ہے۔ شام میں تنازعات سے متعلق شہریوں کی ہلاکتوں کا یہ اب تک کا سب سے بڑا تخمینہ ہے۔ رپورٹ میں ہر شہری کی موت کو دستاویزی شکل دی گئی ہے، جس میں متاثرہ فرد کا پورا نام، اور موت کی تاریخ اور مقام بھی شامل ہے۔
اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ نے کہا کہ رپورٹ میں تنازعات سے متعلقہ ہلاکتوں کے اعداد و شمار صرف تجریدی اعداد کا مجموعہ نہیں ہیں بلکہ ہر فرد کی مادّی نمائندگی بھی کرتی ہے۔
ان کی ترجمان، روینا شام داسانی نے کہا کہ ہائی کمشنر کا خیال ہے کہ ان اموات کی نگرانی اور دستاویزی ثبوت جمع کرنا خاندانوں اور کمیونٹیز کو اپنے پیاروں کی زندگی جس انجام دے دوچار ہوئی، اس بارے میں سچ کو جاننے میں کلیدی مدد فراہم کرے گی۔ اس سے جوابدہی طلب کرنے اور اپنے دکھ کے موثر مرہم میں مدد ملے گی.
شام داسانی نے کہا، "یہ تجزیہ تنازع کی شدت اور پیمانے کا بھی واضح احساس دلائے گا۔" "اور ہمیں واضح کرنا چاہیے، یہ وہ لوگ ہیں جو براہ راست جنگی کارروائیوں کے نتیجے میں مارے گئے تھے۔ اور اس میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں، جو صحت کی دیکھ بھال، خوراک، صفائی ستھرائی تک رسائی، پانی اور دیگر ضروری انسانی حقوق۔سے محروم ہونے کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔ "
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جنگ کے سبب 13.5 ملین افراد جو مجبورا اپنے گھر بار چھوڑنا پڑے اور وہ ملک کے اندر بے گھر ہو گئے۔ یہ تعداد شام کی کل تقریباً 18 ملین آبادی کے دو تہائی سے زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ شام کے اندر 11 ملین افراد کو زندہ رہنے کے لیے بین الاقوامی انسانی امداد کی ضرورت ہے۔
ہائی کمشنر کے دفتر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 10 سالوں میں شہری ہلاکتوں کی تعداد 2011 میں تنازع کے آغاز میں شام کی جتنی کل آبادی تھی، اس کا 1.5 فیصد تھی۔
رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی یہ بڑی تعداد متحارب فریقوں کی جانب سے شہریوں کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی انسانی قانون کا احترام کرنے میں سنگین ناکامی کی نشاندہی کرتی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جب تک جنگ جاری رہے گی شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔