وزیر دفاع چک ہیگل نے کہا کہ مسٹر اوباما نے محکمہ دفاع سے اُن آپشنز کی فہرست طلب کی ہے جن پر شامی حکومت کے خلاف کارروائی سے متعلق اُن کے کسی فیصلے کی صورت میں عمل کیا جا سکتا ہے۔
امریکہ کے وزیرِ دفاع نے واضح اشارہ دیا ہے کہ شام میں بظاہر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے اُس کے خلاف فوجی کارروائی سے متعلق صدر براک اوباما کے کسی بھی فیصلے کے تناظر میں امریکہ اپنی بحری افواج کو متحرک کر رہا ہے۔
ملائیشیا جاتے ہوئے جمعہ کو صحافیوں سے گفتگو میں چک ہیگل نے کہا کہ مسٹر اوباما نے محکمہ دفاع سے اُن آپشنز کی فہرست طلب کی ہے جن پر شامی حکومت کے خلاف کارروائی سے متعلق اُن کے کسی فیصلے کی صورت میں عمل کیا جا سکتا ہے۔
چک ہیگل کے اس بیان سے قبل دفاعی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکی بحریہ بحیرہ روم میں موجود اپنے اثاثوں میں اضافہ کرے گی اور کروز میزائلوں سے لیس چوتھا لڑاکا بحری جہاز بھی وہاں بھیجا جائے گا۔
بحیرہ روم کے لیے مخصوص امریکہ کے چھٹے بحری بیڑے نے ’یو ایس ایس ماہن‘ اور دیگر لڑاکا جہازوں کو ورجینیا کی نارفوک بندرگاہ بھیجنے کے بجائے بیحرہ روم میں ہی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
البتہ امریکی دفاعی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بحریہ کو شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف کسی فوجی کارروائی کے لیے تیاری کرنے کے کوئی احکامات نہیں ملے ہیں۔
روس اور چین نے شام کے دارالحکومت کے مضافاتی علاقے میں زہریلی گیس کے مبینہ استعمال کی تحقیقات سے متعلق بین الاقوامی مطالبات کی حمایت کی ہے، جب کہ صدر اوباما نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر ’’گہری تشویش‘‘ کا اظہار کیا ہے۔
روس کی وزارتِ خارجہ نے جمعہ کو کہا کہ شام میں زہریلی گیس کے استعمال سے سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے بارے میں حکومت کے مخالفین کے دعوے کی بامعنی تحقیقات ہونی چاہیئں۔ روس نے شامی حکومت سے اس سلسلے میں تعاون کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
ماسکو نے باغیوں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو محفوظ راستہ فراہم کریں جو کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق گزشتہ الزامات کی تحقیقات کے سلسلے میں شام میں موجود ہیں۔
روسی وزارت نے اپنا بیان روسی وزیرِ خارجہ سرگی لاوروف اور اُن کے امریکی ہم منصب جان کیری کے درمیان گفتگو کے بعد جاری کیا۔
امریکہ اقوام متحدہ کی سربراہی میں تحقیقات پر زور دے رہا ہے۔ مسٹر اوباما نے امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کو بتایا کہ حکام معلومات جمع کرنے میں مصروف ہیں۔
’’ہم اس معاملے کے بارے میں تاحال معلومات جمع کر رہے ہیں، لیکن یہ انتہائی پریشان کن ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ یہ مفروضہ کہ امریکہ یکدم شام جا کر تمام معاملات کو حل کر سکتا ہے ’’مبالغہ آمیز‘‘ ہوگا۔
’’ہمیں یہ سوچنا ہوگا کیا چیز ہمارے طویل المدت مفاد میں ہوگی۔‘‘
ملائیشیا جاتے ہوئے جمعہ کو صحافیوں سے گفتگو میں چک ہیگل نے کہا کہ مسٹر اوباما نے محکمہ دفاع سے اُن آپشنز کی فہرست طلب کی ہے جن پر شامی حکومت کے خلاف کارروائی سے متعلق اُن کے کسی فیصلے کی صورت میں عمل کیا جا سکتا ہے۔
چک ہیگل کے اس بیان سے قبل دفاعی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکی بحریہ بحیرہ روم میں موجود اپنے اثاثوں میں اضافہ کرے گی اور کروز میزائلوں سے لیس چوتھا لڑاکا بحری جہاز بھی وہاں بھیجا جائے گا۔
بحیرہ روم کے لیے مخصوص امریکہ کے چھٹے بحری بیڑے نے ’یو ایس ایس ماہن‘ اور دیگر لڑاکا جہازوں کو ورجینیا کی نارفوک بندرگاہ بھیجنے کے بجائے بیحرہ روم میں ہی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
البتہ امریکی دفاعی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بحریہ کو شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف کسی فوجی کارروائی کے لیے تیاری کرنے کے کوئی احکامات نہیں ملے ہیں۔
روس اور چین نے شام کے دارالحکومت کے مضافاتی علاقے میں زہریلی گیس کے مبینہ استعمال کی تحقیقات سے متعلق بین الاقوامی مطالبات کی حمایت کی ہے، جب کہ صدر اوباما نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر ’’گہری تشویش‘‘ کا اظہار کیا ہے۔
روس کی وزارتِ خارجہ نے جمعہ کو کہا کہ شام میں زہریلی گیس کے استعمال سے سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے بارے میں حکومت کے مخالفین کے دعوے کی بامعنی تحقیقات ہونی چاہیئں۔ روس نے شامی حکومت سے اس سلسلے میں تعاون کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
ماسکو نے باغیوں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو محفوظ راستہ فراہم کریں جو کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق گزشتہ الزامات کی تحقیقات کے سلسلے میں شام میں موجود ہیں۔
روسی وزارت نے اپنا بیان روسی وزیرِ خارجہ سرگی لاوروف اور اُن کے امریکی ہم منصب جان کیری کے درمیان گفتگو کے بعد جاری کیا۔
امریکہ اقوام متحدہ کی سربراہی میں تحقیقات پر زور دے رہا ہے۔ مسٹر اوباما نے امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کو بتایا کہ حکام معلومات جمع کرنے میں مصروف ہیں۔
’’ہم اس معاملے کے بارے میں تاحال معلومات جمع کر رہے ہیں، لیکن یہ انتہائی پریشان کن ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ یہ مفروضہ کہ امریکہ یکدم شام جا کر تمام معاملات کو حل کر سکتا ہے ’’مبالغہ آمیز‘‘ ہوگا۔
’’ہمیں یہ سوچنا ہوگا کیا چیز ہمارے طویل المدت مفاد میں ہوگی۔‘‘