امریکی قانون سازوں کے ایک گروپ نے اوباما انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ شام کے صدر بشار الاسد کی آمریت کے خاتمے کے لیے ان کے مخالفین کو مسلح کرنے سمیت مزید اقدامات کرے۔
قانون سازوں کے اس گروپ میں ری پبلکن سینیٹر جان مک کین بھی شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ شام میں جاری قتل و غارت کی روک تھام کے لیے امریکہ کو قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیئے۔
مک کین اور پانچ دیگر سینیٹروں نے کانگریس میں ایک قرارداد پیش کی ہے جس میں شام میں جاری قتل و غارت کی مذمت کی گئی ہے اور امریکہ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ شامی شہریوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں قائم کرنے اور الاسد حکومت کے مخالفین کو مسلح کرنے میں مدد دے۔
قرارداد پیش کرنے والوں میں آزاد سینیٹر جو لائبر مین بھی شامل ہیں جنہوں نے ان دعووں پر کڑی تنقید کی ہے کہ صدر الاسد کا اقتدار خاتمے کے قریب ہے۔
سینیٹر لائبر مین کے بقول ہر کوئی یہ کہنے میں مصروف ہے کہ صدر الاسد کی حکومت رخصت ہونے والی ہے لیکن ان کے بقول شامی حکومت کے پاس موجود ہتھیار اور ان کے استعمال پر اس کی آمادگی دیکھ کر ایسا نہیں لگتا ہے۔
لیکن ری پبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم اس بات پر برہم ہیں کہ مجوزہ قرارداد میں صدر بشار الاسد کی اقتدار سے رخصتی کو موضوع کیوں نہیں بنایا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ الاسد حکومت کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے کی کوششیں درحقیقت اس کے اقتدار کو دوام بخشنے کے مترادف ہیں۔ سینیٹر گراہم کے بقول ایسا کرنا ان تمام شامی باشندوں کی توہین ہوگی جنہیں اس محاذ آرائی کے دوران جنسی زیادتی، قتل، تشدد اور دیگر کئی طرح کے مظالم کا نشانہ بننا پڑا ہے۔
قرارداد کے تجویز کنندگان کا اصرار ہے کہ اس میں نہ تو شام میں امریکی فوجی دستوں کی تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی فوجی طاقت کے استعمال کی اجازت دی جارہی ہے۔
گوکہ قرارداد میں اوباما انتظامیہ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ مل کر شامی حزبِ اختلاف کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کرے، لیکن یہ کام کیسے کیا جائے اس کی کوئی وضاحت قرارداد نہیں کرتی۔