شام میں افراتفری، فائدہ داعش کو پہنچ رہا ہے

شمالی شام سے امریکی فوجی انخلا کا منظر

انسداد دہشت گردی سے وابستہ امریکی اہلکاروں نے خبردار کیا ہے کہ ’’دہشت گرد گروپ داعش کی اگلی چالیں کچھ بھی ہو سکتی ہیں‘‘۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے، اہلکاروں نے چوکنا کیا ہے کہ داعش کی تنظیم علاقائی تنازعات کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی مہارت رکھتی ہے۔ دولت اسلامیہ نے ’عرب اسپرنگ‘ کے بعد 2005 اور 2006 میں عراق میں یہی کچھ کیا، اور اب بھی اسی ڈگر پر چل پڑی ہے۔

اور وہ اس بات کی جانب توجہ دلاتے ہیں کہ گزشتہ مارچ میں شام کی اپنی سرزمین کے آخری محفوظ ٹھکانے، شہر باغوز کے ہاتھوں سے نکل جانے کے بعد سات ماہ کے دوران داعش نے اپنی بکھری ہوئی طاقت اکٹھی کرنے پر دھیان مرکوز کر رکھا ہے۔ اس کے پاس اب 10000سے 15000جنگجوؤں کی کھیپ موجود ہے، جس کی مدد سے وہ طویل اور خطرناک سرکشی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔
انسداد دہشت گردی سے وابستہ امریکی اہلکاروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’ابھی یہ بات واضح نہیں کہ ترک مداخلت کے تناظر میں اب داعش شام میں کونسی حکمتِ عملی اختیار کرے گی‘‘۔

اس ماہ کے اوائل میں جب ترکی نے شام کے شمال مشرق میں فوجی کارروائی کا آغاز کیا، داعش کی زیادہ تر کارروائیوں کا ہدف کرد سیکورٹی افواج تھیں۔ اس بات کی بھی افواہیں تھیں کہ داعش تقریباً ان 12000جنگجوؤں کو آزاد کرائے گی جنھیں امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز نے قید کر رکھا تھا، اور ساتھ داعش کے جنگجوؤں کی ہزاروں بیگمات اور ان کے اہل خانہ کو چھڑانے کی کوشش کرے گی جو بے دخل ہونے والوں کی کیمپوں میں قید تھیں۔

اس بات کی جانب داعش کے لیڈر ابوبکر البغدادی نے ستمبر میں اپنی تقریر میں اشارہ دیا تھا۔

ابھی یہ بات واضح نہیں ہو پائی ہے کہ داعش کے کتنے جنگجو فرار ہونے کے بعد پکڑے گئے ہیں۔ امریکی اہلکار کہتے ہیں کہ ترکی اور ایس ڈی ایف نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ انھیں پھر سے پکڑ کر قید میں ڈال دیا گیا ہے؛ حالانکہ وہ سرزمین پر امریکی افواج کی غیر موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے دعووں کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔