شامی حزب اختلاف نے کہا ہے کہ وہ جمعے کو جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت نہیں کرے گی۔
جمعرات کو حزب اختلاف کی سعودی حمایت یافتہ ’اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی‘ نے اعلان کیا تھا کہ شام میں فضائی کارروائیوں کے خاتمے اور محاصر ختم کرنے کے مطالبے پر اسے ملنے والا جواب ناقابل قبول ہے۔
کمیٹی رواں ہفتے ریاض میں ملاقاتیں کرتی رہی ہے اور اس کے ارکان کا کہنا ہے کہ وہ جمعے کو بھی ریاض میں ہی ہوں گے جب سوئٹزرلینڈ میں مذاکرات شروع ہو رہے ہیں۔
تاہم انہوں نے بعد میں ہونے والے اجلاسوں میں شرکت کے امکان کو رد نہیں کیا جو کئی ماہ تک جاری رہنے کی توقع ہے۔
یہ اعلان ان مشکلات کی طرف اشارہ کرتا ہے جو شام میں جاری خانہ جنگی کا سیاسی حل تلاش کرنے کی راہ میں حائل ہیں۔ پانچ سال سے جاری اس جنگ میں لگ بھگ ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ 46 لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔
شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے سٹافن ڈی مستورا نے جمعرات کو ایک وڈیو پیغام میں کہا کہ ان مذاکرات کو ناکام ہونے نہیں دیا جا سکتا۔
مذاکرات منعقد کرنے والے اقوام متحدہ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ جمعے کو ہونے والے اجلاس میں امن مذاکرات نہیں ہوں گے بلکہ ان کی تفصیلات طے کرنے کے لیے بات چیت کی جائے گی۔
شامی حکومت کے نمائندوں نے اس ماہ کے اوائل میں ڈی مستورا سے بات چیت کے بعد مذاکرات میں شرکت پر اتفاق کیا تھا۔
روس کی حمایت یافتہ شامی حکومت اور منقسم حزب اختلاف کی طرف سے شام میں مسلسل حملوں کے باوجود اقوام متحدہ کے سفیر ان مذاکرات کو ایک اہم پہلا قدم سمجھتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں صدر بشار الاسد سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ ’’میرا کام ہے کہ میں ہمیشہ پر امید رہوں۔‘‘