زندگی بہت مختلف ہو گئی ہے ۔ ایسا لگتا ہے پچھلے سال میں جیسے کسی خواب میں تھی۔ مجھے اپنے ملک، اپنے شہر سے پیار ہے لیکن اسے کئی سماجی، سیاسی اور شہری تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔۔۔ بلوچی زبان میں کتاب لکھنے والی گوادر کی مریم سلیمان کہتی ہیں، ’’امریکہ نے مسائل کا حل تو بتایا، یہ نہیں بتایا ان کا سامنا کیسے کرنا ہے۔‘‘
واشنگٹن —
’’میں نے گوادر آکر کالج میں داخلہ لیا تھا، مگر وہاں پڑھانے کے لئے کوئی استاد ہی موجود نہیں ۔ میں واپس آئی ، تو سب سے بڑا مسئلہ پانی کی کمی تھا۔ پچھلے ہفتے یہاں بارش ہوئی ، ورنہ پانی کی قلت بحران کی شکل اختیار کر گئی تھی۔ امریکہ میں رہنے کے ایک سالہ تجربے نے مجھے مسائل کا حل تو بتایا ۔۔ یہ نہیں بتایا کہ ان کا سامنا کیسے کرنا ہے۔ ‘‘
بغیر گرائمر کی غلطی کے ،انگلش میں لکھی گئی یہ ای میل اس ذہین آنکھوں والی سترہ سالہ لڑکی نے بھیجی ہے ۔ جو بلوچستان کے شہر گوادر میں رہتی ہے ۔ جو پاکستانی بھی ہے اور بلوچ بھی ۔۔لیکن اس کے ارادے ویسے ہی ہیں ، جیسے دہشت گردی ، بجلی اور گیس کے بحران میں ڈوبتے ابھرتے ، باقی تمام جواں ہمت ، اور باحوصلہ پاکستانیوں کے ۔۔بے حد اونچے ۔۔اور بےحد عالی مقام !
نہیں نہیں ، میں نصابی کتابوں کے الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتی، لیکن اس کی آنکھوں میں کچھ بہت خاص ، کچھ بہت غیر معمولی تھا ۔۔کچھ ایسا ،جس نے مجھے دو منٹ کے جھٹ پٹ انٹرویو کے بجائے پندرہ منٹ سے بھی زیادہ دیر تک اسی سے بات کرتے رہنے پر مجبور کیا۔۔اس کی آنکھیں اس کے عزائم کی لو سے جگمگا رہی تھیں۔۔ چہرے پر ایسی سادگی اوربردباری تھی کہ میں نے سر سے پاؤں تک اس کا جائزہ لینے پر خود کو مجبور پایا ۔۔ایک بار۔۔دو بار ۔۔۔کئی بار!
اس نے لکھا ہے ،
’’ دن کے وقت ایک پرائمری سکول میں پڑھا رہی ہوں،اور شام میں بچوں کو گھر پرکمپیوٹر اور انگلش کی کلاسیں دیتی ہوں۔ میں پڑھانا اس لئے چاہتی ہوں کہ امریکہ میں ایک سالہ قیام کے دوران انگلش بولنے میں جو مہارت حاصل کی،اسے کہیں کھونہ دوں۔ میں ٹیوشنز پڑھا کر اتنے پیسے کمانا چاہتی ہوں کہ دو سال بعد گوادر سے باہر کسی دوسرے شہر جا کر تعلیم جاری رکھ سکوں ۔ کل میں نے ڈسٹرکٹ ہال گوادر میں کم عمری کی شادیوں کے بارے میں ایک سیمینار میں پریزینٹیشن بھی دی تھی ،تاکہ لوگوں کوپتہ چلے کہ کم عمری کی شادیاں کتنی نقصان دہ ہوتی ہیں۔ اس ہفتے امریکہ سے ایک ٹیم گوادر آرہی ہے ۔ میں انہیں گوادر میں تعلیم کی صورتحال سےآگاہ کرنے کی کوشش کروں گی۔‘‘
میرون رنگ کی مخصوص بلوچی کڑھائی والے زرد شلوار قمیص اور بڑی سی چادر میں احتیاط سے سر ڈھانپے، وہ سولہ سال کی چھوٹی سی لڑکی ایسے اعتماد سے جم کر کھڑی تھی، جیسے بلوچستان کے تمام بڑے اور چھوٹے مسئلے ابھی ،اسی وقت حل کرواکے پاکستان جائے گی۔۔۔اس کے پر اعتماد لہجے میں اپنے صوبے کے حالات سے گہری واقفیت اور اپنے لوگوں کے لئے کچھ کرنے کی لگن اتنی شدید تھی کہ میں بہت دیر حیرت کی زیادتی پر قابو پانے کی کوشش کرتی رہی۔۔۔
کون کہتا ہے ،پاکستان کے نوجوانوں کو اپنے ملک کے مسائل کا علم نہیں ۔۔اپنی سمت کے بارے میں آگہی نہیں ۔۔
مریم سلیمان پچھلے سال کینیڈی لوگر یوتھ ایکسچینج اینڈ سٹڈی یعنی ییس پروگرام کے تحت گوادر سے امریکہ آنے والی پہلی لڑکی تھی ۔ وہ پاکستان واپس جاکر لڑکیوں کے لئے انگلش لینگویج سینٹر کھولنا چاہتی تھی ۔۔وکیل بننا چاہتی تھی ۔۔وہ بتا رہی تھی کہ بلوچستان میں لڑکیوں کو تعلیم کے مواقع زیادہ نہیں ملتے۔۔پھر بھی اس کے والد نے اسے انگریزی سکھانے کے لئے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے تحت چلنے والے ایکسیس پروگرام میں شامل کروایا۔۔اور پھر ییس پروگرام کے تحت ایکسچینج سٹوڈنٹ امریکہ بھیجنے کی ہمت بھی کی ۔ وہ انگریزی زبان میں اپنی مہارت کا سہرا ایکسیس پروگرام کے ایک ٹیچر سر ناصرکے سر باندھ رہی تھی ۔ مگرگوادر سے واشنگٹن ڈی سی پہنچنے میں اس کی خداد داد صلاحیت اور خود اعتمادی کا کتنا دخل تھا ۔ یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں تھا ۔
وہ خوشی سے پرجوش آواز میں بتا رہی تھی کہ ییس پروگرام کے دیگرطلباءکے ساتھ اس نےواشنگٹن میں کچھ سینیٹرزاور ان کے سٹاف سے ملاقات کی ہے ۔ اور جب اس نے انہیں بتایا کہ اس کا تعلق گوادر سے ہے، تو انہوں نے گوادر کو فورا پہچان لیا ، اور جلدی سے کہا ،
’’ گوادر ؟۔۔ ، ہاں گوادر کو ہم جانتے ہیں ،کیونکہ گوادر میں ایک پورٹ بنایا گیا ہے ۔ ‘‘
وہ واشنگٹن اور کیلی فورنیا کے درمیان واقع ریاست اوریگن کے ایک چھوٹے سے شہر کوکیل میں اپنے امریکی سکول اور میزبان امریکی خاندان کی تعریفیں کرتی نہیں تھک رہی تھی ۔ اسے امریکہ میں سب سے اچھی چیز یہی لگی تھی کہ یہاں لوگ رضاکارانہ طور پر کمیونٹی کے لئے کتنا کام کرتے ہیں ۔ اس نے بتایا کہ اس نے امریکہ میں اپنے ایک سالہ قیام کے دوران والنٹئیر ورک کے ایک سو سترہ گھنٹے پورے کئے ہیں۔
’’ میں چاہتی ہوں کہ میں بھی واپس جاکر اپنے علاقے اور اپنی کمیونٹی کے لئے کام کروں۔‘‘
وہ فخر سے بتا رہی تھی کہ امریکہ میں اس کے میزبان امریکی خاندان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ پاکستان میں لوگ کتنی مختلف زبانیں بولتے ہیں ۔ہر علاقے میں الگ رسم و رواج ہوتے ہیں ، الگ زبان بولی جاتی ہے ۔ اور یہ کہ،
’’میں نے اپنی ہوسٹ مام کو بلوچی کڑھائی کرنا سکھائی ، بلوچی کھانے جو ہم کھاتے ہیں ، وہ پکانے سکھائے ۔۔اور بتایا کہ ہمارے کلچر میں خاندان کے تمام افراد کیسے مل جل کر رہتے ہیں ۔ ‘‘
ییس پروگرام کے تحت ایک سال کے لئے امریکہ آنا مریم سلیمان کی زندگی کا ناقابل فراموش تجربہ تھا ۔
وہ کہہ رہی تھی ’’میں نے اتنا کچھ سیکھا ہے یہاں ، کہ میں واپس جاکر اپنے تجربات پر بلوچی زبان میں ایک کتاب لکھوں گی ‘‘۔
’’مگر بلوچی میں کیوں ؟‘‘۔۔میں نے پوچھا تھا ۔
’’بلوچی میں اس لئے کہ انگلش میں تو شائد بہت لوگوں نے لکھا ہوگا، مگر بلوچی میں کسی نے ایسی کتاب نہیں لکھی ‘‘۔
یہ پچھلے سال مارچ دوہزار بارہ کی بات ہے۔۔مجھے وہ لڑکی ایسی۔۔۔ اتنی غیر معمولی معلوم ہوئی تھی کہ آج اتنے مہینوں بعد بھی میں اس کی آنکھوں کے روشنی ، اس کے چہرے کی چمک ، اس کے نقوش کی سادگی کو اپنے ذہن میں کسی تصویر کی طرح ابھرتے دیکھ سکتی ہوں ۔
پتہ نہیں کیوں ،مجھے پورا یقین تھا، وہ لڑکی بلوچستان واپس جاکر اپنے علاقے کی قسمت بدل کر رکھ دے گی ۔ اور کچھ نہیں تو اپنے شہر گوادر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے تو ضرور ایک روشن و رخشاں مثال قائم کرے گی ۔
لیکن اس سال اکتوبر میں مریم نےاپنے ہی جیسی ایک اور پر جوش اور باحوصلہ لڑکی ملالہ یوسف زئی کوتعلیم کے حق کے لئے آواز اٹھانے کی پاداش میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے دیکھا ہے ۔
آج ، جب میں سوشل میڈیا پرکوئٹہ بم دھماکوں میں مرنے والے چھیانوے افراد کے جنازے لئے بیٹھے سوگوارچہروں کو حکومت سے فرقہ وارانہ دہشت گردی روکنے کے مطالبے کرتے ،دھرنا دیئے ،کسی غیبی امداد کا انتظار کرتے دیکھ رہی ہوں، گوادر سےمریم سلیمان کی تازہ
ای میل میرے سامنے ہے۔
اس نے لکھا ہے،
’’زندگی بہت مختلف ہو گئی ہے ۔ ایسا لگتا ہے پچھلے سال میں جیسے کسی خواب میں تھی۔ مجھے اپنے ملک ، اپنے شہرسے پیار ہے لیکن انہیں کئی سماجی ، سیاسی اور شہری تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔۔۔ میرے لوگ تکلیف میں ہیں ۔ اور میرا دل چاہتا ہے کہ میں ان کی تکلیف کم کرنے کے لئے کچھ تو کروں ۔۔ کبھی کبھی میں دل برداشتہ ہو جاتی ہوں ۔جی چاہتا ہے کہ کیسے مجھے کوئی اور سکالر شپ مل جائے اور میں دوبارہ امریکہ چلی جاؤں۔‘‘
میرے والد مجھے کراچی یا کوئٹہ بھیج کر تعلیم دلوانے کی استطاعت نہیں رکھتے، لیکن اگر ایسا ہوا ، تو بھی میں گوادر میں ہی رہنے کو ترجیح دوں گی ، کیونکہ حالات تو ہر جگہ خراب ہیں ۔
’’میں مستقبل میں ایک کامیاب اور خودمختار عورت بننا چاہتی ہوں ۔ میں نے اپنی کتاب کے لئے بہت کچھ لکھ لیا ہے اور وہ تقریباً مکمل ہو چکی ہے ۔۔ آپ کی اچھی خواہشات کا شکریہ۔۔آپ کو بھی نیا سال مبارک !‘‘
بغیر گرائمر کی غلطی کے ،انگلش میں لکھی گئی یہ ای میل اس ذہین آنکھوں والی سترہ سالہ لڑکی نے بھیجی ہے ۔ جو بلوچستان کے شہر گوادر میں رہتی ہے ۔ جو پاکستانی بھی ہے اور بلوچ بھی ۔۔لیکن اس کے ارادے ویسے ہی ہیں ، جیسے دہشت گردی ، بجلی اور گیس کے بحران میں ڈوبتے ابھرتے ، باقی تمام جواں ہمت ، اور باحوصلہ پاکستانیوں کے ۔۔بے حد اونچے ۔۔اور بےحد عالی مقام !
اس نے لکھا ہے ،
’’ دن کے وقت ایک پرائمری سکول میں پڑھا رہی ہوں،اور شام میں بچوں کو گھر پرکمپیوٹر اور انگلش کی کلاسیں دیتی ہوں۔ میں پڑھانا اس لئے چاہتی ہوں کہ امریکہ میں ایک سالہ قیام کے دوران انگلش بولنے میں جو مہارت حاصل کی،اسے کہیں کھونہ دوں۔ میں ٹیوشنز پڑھا کر اتنے پیسے کمانا چاہتی ہوں کہ دو سال بعد گوادر سے باہر کسی دوسرے شہر جا کر تعلیم جاری رکھ سکوں ۔ کل میں نے ڈسٹرکٹ ہال گوادر میں کم عمری کی شادیوں کے بارے میں ایک سیمینار میں پریزینٹیشن بھی دی تھی ،تاکہ لوگوں کوپتہ چلے کہ کم عمری کی شادیاں کتنی نقصان دہ ہوتی ہیں۔ اس ہفتے امریکہ سے ایک ٹیم گوادر آرہی ہے ۔ میں انہیں گوادر میں تعلیم کی صورتحال سےآگاہ کرنے کی کوشش کروں گی۔‘‘
کون کہتا ہے ،پاکستان کے نوجوانوں کو اپنے ملک کے مسائل کا علم نہیں ۔۔اپنی سمت کے بارے میں آگہی نہیں ۔۔
مریم سلیمان پچھلے سال کینیڈی لوگر یوتھ ایکسچینج اینڈ سٹڈی یعنی ییس پروگرام کے تحت گوادر سے امریکہ آنے والی پہلی لڑکی تھی ۔ وہ پاکستان واپس جاکر لڑکیوں کے لئے انگلش لینگویج سینٹر کھولنا چاہتی تھی ۔۔وکیل بننا چاہتی تھی ۔۔وہ بتا رہی تھی کہ بلوچستان میں لڑکیوں کو تعلیم کے مواقع زیادہ نہیں ملتے۔۔پھر بھی اس کے والد نے اسے انگریزی سکھانے کے لئے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے تحت چلنے والے ایکسیس پروگرام میں شامل کروایا۔۔اور پھر ییس پروگرام کے تحت ایکسچینج سٹوڈنٹ امریکہ بھیجنے کی ہمت بھی کی ۔ وہ انگریزی زبان میں اپنی مہارت کا سہرا ایکسیس پروگرام کے ایک ٹیچر سر ناصرکے سر باندھ رہی تھی ۔ مگرگوادر سے واشنگٹن ڈی سی پہنچنے میں اس کی خداد داد صلاحیت اور خود اعتمادی کا کتنا دخل تھا ۔ یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں تھا ۔
’’ گوادر ؟۔۔ ، ہاں گوادر کو ہم جانتے ہیں ،کیونکہ گوادر میں ایک پورٹ بنایا گیا ہے ۔ ‘‘
وہ واشنگٹن اور کیلی فورنیا کے درمیان واقع ریاست اوریگن کے ایک چھوٹے سے شہر کوکیل میں اپنے امریکی سکول اور میزبان امریکی خاندان کی تعریفیں کرتی نہیں تھک رہی تھی ۔ اسے امریکہ میں سب سے اچھی چیز یہی لگی تھی کہ یہاں لوگ رضاکارانہ طور پر کمیونٹی کے لئے کتنا کام کرتے ہیں ۔ اس نے بتایا کہ اس نے امریکہ میں اپنے ایک سالہ قیام کے دوران والنٹئیر ورک کے ایک سو سترہ گھنٹے پورے کئے ہیں۔
’’ میں چاہتی ہوں کہ میں بھی واپس جاکر اپنے علاقے اور اپنی کمیونٹی کے لئے کام کروں۔‘‘
’’میں نے اپنی ہوسٹ مام کو بلوچی کڑھائی کرنا سکھائی ، بلوچی کھانے جو ہم کھاتے ہیں ، وہ پکانے سکھائے ۔۔اور بتایا کہ ہمارے کلچر میں خاندان کے تمام افراد کیسے مل جل کر رہتے ہیں ۔ ‘‘
ییس پروگرام کے تحت ایک سال کے لئے امریکہ آنا مریم سلیمان کی زندگی کا ناقابل فراموش تجربہ تھا ۔
وہ کہہ رہی تھی ’’میں نے اتنا کچھ سیکھا ہے یہاں ، کہ میں واپس جاکر اپنے تجربات پر بلوچی زبان میں ایک کتاب لکھوں گی ‘‘۔
’’مگر بلوچی میں کیوں ؟‘‘۔۔میں نے پوچھا تھا ۔
’’بلوچی میں اس لئے کہ انگلش میں تو شائد بہت لوگوں نے لکھا ہوگا، مگر بلوچی میں کسی نے ایسی کتاب نہیں لکھی ‘‘۔
پتہ نہیں کیوں ،مجھے پورا یقین تھا، وہ لڑکی بلوچستان واپس جاکر اپنے علاقے کی قسمت بدل کر رکھ دے گی ۔ اور کچھ نہیں تو اپنے شہر گوادر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے تو ضرور ایک روشن و رخشاں مثال قائم کرے گی ۔
لیکن اس سال اکتوبر میں مریم نےاپنے ہی جیسی ایک اور پر جوش اور باحوصلہ لڑکی ملالہ یوسف زئی کوتعلیم کے حق کے لئے آواز اٹھانے کی پاداش میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے دیکھا ہے ۔
ای میل میرے سامنے ہے۔
اس نے لکھا ہے،
’’زندگی بہت مختلف ہو گئی ہے ۔ ایسا لگتا ہے پچھلے سال میں جیسے کسی خواب میں تھی۔ مجھے اپنے ملک ، اپنے شہرسے پیار ہے لیکن انہیں کئی سماجی ، سیاسی اور شہری تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔۔۔ میرے لوگ تکلیف میں ہیں ۔ اور میرا دل چاہتا ہے کہ میں ان کی تکلیف کم کرنے کے لئے کچھ تو کروں ۔۔ کبھی کبھی میں دل برداشتہ ہو جاتی ہوں ۔جی چاہتا ہے کہ کیسے مجھے کوئی اور سکالر شپ مل جائے اور میں دوبارہ امریکہ چلی جاؤں۔‘‘
میرے والد مجھے کراچی یا کوئٹہ بھیج کر تعلیم دلوانے کی استطاعت نہیں رکھتے، لیکن اگر ایسا ہوا ، تو بھی میں گوادر میں ہی رہنے کو ترجیح دوں گی ، کیونکہ حالات تو ہر جگہ خراب ہیں ۔
’’میں مستقبل میں ایک کامیاب اور خودمختار عورت بننا چاہتی ہوں ۔ میں نے اپنی کتاب کے لئے بہت کچھ لکھ لیا ہے اور وہ تقریباً مکمل ہو چکی ہے ۔۔ آپ کی اچھی خواہشات کا شکریہ۔۔آپ کو بھی نیا سال مبارک !‘‘