ہماری آج کی دنیا کا سچ تو بس اتنا ہی ہے ناں !!۔۔کل کوئی نیا واقعہ پیش آئے گا۔ اورلوگ ماؤنٹ الزبتھ سنگاپور میں مرنے والی لڑکی کو بھول کر،موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والے کسی نئے کردار کا تماشہ دیکھنے کے لئے کوئی نیا میلہ تلاش کر لیں گے ۔
دل میں کل شام سے دھواں سا بھر رہا ہے ۔
انسانیت ایک بار پھر، پاؤں کے نیچے روندی گئی ہے ۔ کچلی گئی ہے ۔ بے توقیر ہوئی ہے۔
بھارت شدت غم سے نڈھال ہے ۔ کام کرنے والی، پڑھی لکھی ، ملازمت پیشہ خواتین کا اعتماد بڑے ہی بھیانک انداز سے مجروح ہو ا ہے۔
سنا ہے، بھارتی صدر پرناب مکھر جی کے بیٹے ابھیجیت مکھر جی نے اس واقعے کے خلاف آواز اٹھانے والی عورتوں کو نمایاں ہونے کی شوقین اور سیاسی ایجنڈے کی حامل قرار دیا تھا ۔۔پھر اس پر معذرت کر لی ۔
شائد وہ واقعی شرمندہ ہوں!۔۔۔ ہونا بھی چاہئے !
مگر صرف بھارت کو نہیں، پوری انسانیت کو ۔ جس کا قتل عمد ہوا ہے۔
لیکن کیاہمارے آپ کے نیم خواندہ معاشرے کے مروجہ سٹینڈرڈز کے مطابق ’’بے عزت‘‘ہو جانے والی اس بے نام اور بے چہرہ لڑکی کی روح اور جسم پر لگے زخموں کی اذیت کا حساب صرف غم منا کر ۔ پچھتاوے اور معذرتوں کے اظہار سےدیا جا سکتاہے ۔۔؟
کیا سچ یہی نہیں ہے کہ روح کو تھرا دینے والی اذیت سے گزرکر جان کی بازی ہارجانے والی لڑکی کا تماشہ دنیا نے اپنے ٹیلی ویژن سکرینز پر دیکھا۔۔۔ٹویٹرکی فیڈ اور فیس بک پیجز پر اپ ڈیٹ کیا۔ اور بس! کہانی ختم! پیسہ ہضم!
ہماری آج کی دنیا کا سچ تو بس اتنا ہی ہے ناں !!۔۔کل کوئی نیا واقعہ پیش آئے گا۔ اور لوگ ماؤنٹ الزبتھ سنگاپور میں مرنے والی لڑکی کو بھول کر،موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والے، کسی نئے کردار کا تماشہ دیکھنے کے لئے کوئی نیا میلہ تلاش کر لیں گے ۔
پیچھےبچیں گے توبس کچھ نہ بھرنے والے زخم۔۔۔ کچھ درد بھری آہیں ، کچھ خاموش سسکیاں ۔ جو دلی کے ایک ہندو گھرانے کے اندھیرے گھر میں کم از کم ایک نسل تک گونجتی رہیں گی ۔
مگریاد رہے ۔ صرف ایک نسل تک!۔۔۔۔۔اس سے زیادہ ایک انسانی جان کی حیثیت ہی کیا ہے ؟
ایسے بھیانک واقعات کو ایک نسل سے زیادہ کوئی خاندان یاد بھی کیوں رکھنا چاہے گا ؟
مگر کیا کروں کہ جب سے اس لڑکی کی موت کی خبر سنی ہے ۔تکلیف کی ایک مسلسل کیفیت جیسے اندر سے مسلسل چھیدے جا رہی ہے۔ درد بڑھ رہا ہے ۔ الفاظ خاموش ہیں ۔اورجذبات جیسی بے حیثیت چیز کا تو کوئی مطلب ہی نہیں ۔
پھر بھی مجھےلگتا ہے ، کچھ کہناضروری ہے ۔ لازمی ہے ۔ ناگزیر ہے ۔
یادداشت میں کچھ چہرے ابھر رہے ہیں ۔
وہ میری تئیس سالہ بھارتی پڑوسن !
کیابھلا سا نام تھا اس کا!
وہی ۔۔جو بھارتی ہریانہ کے کسی چھوٹے سے گاؤں سے آئی تھی۔۔
جس کے باپ نے اسے پڑھا لکھا کر انجنئیر بنایا تھا۔
جو بنگلور کی کسی ٹیلی کام کمپنی میں ملازمت کرتی تھی۔
والدین سے دور کسی پرائیویٹ ہاسٹل میں رہتی تھی۔
جسے اس کی کمپنی نے ایک سال کے لئے اپنی امریکی شاخ میں کام کرنے کے لئے واشنگٹن بھیجا تھا۔
وہی لڑکیجس، سے مل کر میں ، ایک روایتی، تنگ نظر، جنوبی ایشیائی ذہنیت کی ماری ہوئی ،عام سی پاکستانی عورت حیران رہ گئی تھی۔
اس کی جگنووں جیسی روشن آنکھیں ، کشادہ پیشانی اور بے ریا مسکراہٹ دیکھ کر میں سوچ رہی تھی کہ کوئی لڑکی اپنے والدین سےالگ رہ کر بھی ۔ پڑھی لکھی اور ملازمت پیشہ ہو کر بھی ۔ ایسی سادہ دل ، ایسی معصوم، ایسی پیاری انسان کیسے ہو سکتی ہے ؟
وہ پچھلے مہینے اپنی انڈیا واپسی کے وقت ملنے آئی ، تو خوشی کی زیادتی سے کانپ رہی تھی ۔
اس کی فلائٹ اگلے دن شام کوروانہ ہونا تھی ۔ مگر اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ابھی اسی وقت ائیر پورٹ پر جا بیٹھے، اور واشنگٹن سے دلی پرواز کرنے والے جہازوں کو دیکھ دیکھ کر قربان ہوتی رہے۔
’’سمجھ میں نہیں آتا دیدی ، میں کیسے اڑ کر اپنے گھر پہنچ جاؤں، اپنی ماں کے پاس۔‘‘
وہ لڑکی ۔۔ جو نہ میرے ملک کی ہے ۔۔نہ میرے مذہب کی۔۔ مگر جس کے پہننے ، اوڑھنے اور اپنے آپ کو carry کرنےکے انداز میں مجھے کچھ بھی دعوت دیتا، اپنی طرف متوجہ کرتا ، کچھ بھی قابل گرفت نظر نہیں آیا۔
وہ لڑکی کچھ دن پہلے بخیر و عافیت اپنے دیش ،اپنے بھارت مہان ،واپس بھی پہنچ چکی ہے۔ اس نے بنگلور میں اپنی ملازمت بھی دوبارہ جوائن کر لی ہے ۔
مگر میرے دل میں وہم ہی وہم ہیں۔ میری روح سےاس کی سلامتی کی دعائیں نکل رہی ہیں ۔
وہ جو تنہا ، اپنے ماں باپ سے دور ، اپنے بہن بھائیوں کا مستقبل بنانے کے لئے سخت محنت کر رہی ہے ۔
جو ہر رات سونے سے پہلے لازمی ایک گھنٹہ روزانہ اپنی ماں کو ہریانہ فون کرکے اس سے بات کرتی ہے ۔
مجھے کہنے دیجئے کہ مجھے اس کی سلامتی کی فکر ہے۔
سی این این کہتا ہے کہ بھارت میں 2011 کے دوران عورتوں سے جنسی زیادتی کے 24,206واقعات پیش آئے ۔ صرف دلی شہر میں سال 2012 کے دوران جنسی زیادتی کے 600 واقعات رپورٹ ہوئے۔
دلی ،جہاں لڑکیاں ہیلمٹ پہن کر موٹر سائیکل چلاتی ہیں ۔ جہاں 21 سے 34 سال کی عمر کی 34 فی صد عورتیں شہر کی ورک فورس ، افرادی قوت کا حصہ ہیں ۔ جودنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور تیزی سے ابھرتی ہوئی عالمی معیشت کی راجدھانی ہے۔ دلی۔۔۔جسے ریپ کیپیٹل آف انڈیا کہا جاتا ہے۔
مگردنیا صرف دلی تو نہیں ۔ دنیاصرف انڈیا تو نہیں ۔ دنیا تو بہت بڑی ہے ۔
سات اعشاریہ چھ ارب انسانوں کی اس دنیا میں تین ارب سے زائد انسان، اسی عورت ذات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یعنی کل انسانی آبادی کا انچاس فیصد ۔ جس کے ساتھ دنیا بھر میں ہر سال جنسی زیادتی کے ڈھائی لاکھ واقعات پیش آ تے ہیں ۔
خود امریکہ میں ایک تنظیم کرائسس کنیکشن انک ڈاٹ آرگ کے اعدادو شمار کے مطابق ہر پینتالیس سیکنڈ میں ایک واقعہ جنسی زیادتی کا ہوتا ہے ۔ کالجزمیں پڑھنے والی ہر 7 میں سے ایک لڑکی جنسی تشدد کا سامنا کرتی ہے ۔ امریکہ میں بھی ایسے 61 فیصد واقعات رپورٹ نہیں کئے جاتے ۔ بالکل ویسے ہی ،جیسے دنیا کے اکثر ملکوں میں نہیں کئے جاتے۔
اور پاکستان کاکیا ذکر ۔۔؟ وہ تو اسلامی جمہوریہ ہے ۔ وہاں تو چادر اور چار دیواری کا تحفظ کئی سیاسی جماعتوں کا انتخابی نعرہ بنتا رہا ہے۔
لیکن کیا کروں ؟ کم بخت یادداشت میں کچھ اور نام سرسرا رہے ہیں ۔ دھندلےدھندلےسایوں کی طرح مٹے مٹے سے کچھ نام ۔ جو مختلف وقتوں پراخبارات اور نیوز چینلز کی ہیڈ لائنز بنے ۔ پس منظر بنے ۔ باسی خبر بنے۔
اور جن پر ہوئے ظلم کا حساب کسی نے کبھی نہیں دیا ۔
شائد کسی کو سبٓی کی ڈاکٹر شازیہ یاد ہوں ؟
نہیں ۔؟
اچھاتو شائد مختارمائی کے مجرموں کا عدالت سے بری ہونا یاد ہوگا ۔۔؟؟
نہیں ؟؟
اوہو، تو پھر ایک اعتدال پسند، روشن خیال ،فوجی حکمران کا وہ جملہ تو ضرور یادہوگا کہ پاکستان میں کوئی بھی عورت امریکہ کا ویزہ لینے کے لئے کسی پر بھی کوئی بھی الزام لگا سکتی ہے۔؟؟؟
نہیں یاد آیا ناں ۔۔؟؟؟
کوئی بات نہیں ۔۔آپ کا کوئی قصور نہیں۔
لیکن کل ایسا ہی کوئی واقعہ اور ہوگا۔
آپ کے شہر میں ۔۔آپ کی گلی میں ۔۔ آپ کے خاندان میں ۔۔بس!!
جب تک ایسا آپ کی اپنی بیٹی، اپنی بہن یا اپنی بیوی کے ساتھ نہیں ہوتا۔
خاموش رہئے ۔۔بالکل خاموش!!
انسانیت ایک بار پھر، پاؤں کے نیچے روندی گئی ہے ۔ کچلی گئی ہے ۔ بے توقیر ہوئی ہے۔
بھارت شدت غم سے نڈھال ہے ۔ کام کرنے والی، پڑھی لکھی ، ملازمت پیشہ خواتین کا اعتماد بڑے ہی بھیانک انداز سے مجروح ہو ا ہے۔
سنا ہے، بھارتی صدر پرناب مکھر جی کے بیٹے ابھیجیت مکھر جی نے اس واقعے کے خلاف آواز اٹھانے والی عورتوں کو نمایاں ہونے کی شوقین اور سیاسی ایجنڈے کی حامل قرار دیا تھا ۔۔پھر اس پر معذرت کر لی ۔
شائد وہ واقعی شرمندہ ہوں!۔۔۔ ہونا بھی چاہئے !
مگر صرف بھارت کو نہیں، پوری انسانیت کو ۔ جس کا قتل عمد ہوا ہے۔
لیکن کیاہمارے آپ کے نیم خواندہ معاشرے کے مروجہ سٹینڈرڈز کے مطابق ’’بے عزت‘‘ہو جانے والی اس بے نام اور بے چہرہ لڑکی کی روح اور جسم پر لگے زخموں کی اذیت کا حساب صرف غم منا کر ۔ پچھتاوے اور معذرتوں کے اظہار سےدیا جا سکتاہے ۔۔؟
کیا سچ یہی نہیں ہے کہ روح کو تھرا دینے والی اذیت سے گزرکر جان کی بازی ہارجانے والی لڑکی کا تماشہ دنیا نے اپنے ٹیلی ویژن سکرینز پر دیکھا۔۔۔ٹویٹرکی فیڈ اور فیس بک پیجز پر اپ ڈیٹ کیا۔ اور بس! کہانی ختم! پیسہ ہضم!
ہماری آج کی دنیا کا سچ تو بس اتنا ہی ہے ناں !!۔۔کل کوئی نیا واقعہ پیش آئے گا۔ اور لوگ ماؤنٹ الزبتھ سنگاپور میں مرنے والی لڑکی کو بھول کر،موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والے، کسی نئے کردار کا تماشہ دیکھنے کے لئے کوئی نیا میلہ تلاش کر لیں گے ۔
پیچھےبچیں گے توبس کچھ نہ بھرنے والے زخم۔۔۔ کچھ درد بھری آہیں ، کچھ خاموش سسکیاں ۔ جو دلی کے ایک ہندو گھرانے کے اندھیرے گھر میں کم از کم ایک نسل تک گونجتی رہیں گی ۔
مگریاد رہے ۔ صرف ایک نسل تک!۔۔۔۔۔اس سے زیادہ ایک انسانی جان کی حیثیت ہی کیا ہے ؟
ایسے بھیانک واقعات کو ایک نسل سے زیادہ کوئی خاندان یاد بھی کیوں رکھنا چاہے گا ؟
مگر کیا کروں کہ جب سے اس لڑکی کی موت کی خبر سنی ہے ۔تکلیف کی ایک مسلسل کیفیت جیسے اندر سے مسلسل چھیدے جا رہی ہے۔ درد بڑھ رہا ہے ۔ الفاظ خاموش ہیں ۔اورجذبات جیسی بے حیثیت چیز کا تو کوئی مطلب ہی نہیں ۔
پھر بھی مجھےلگتا ہے ، کچھ کہناضروری ہے ۔ لازمی ہے ۔ ناگزیر ہے ۔
یادداشت میں کچھ چہرے ابھر رہے ہیں ۔
وہ میری تئیس سالہ بھارتی پڑوسن !
کیابھلا سا نام تھا اس کا!
وہی ۔۔جو بھارتی ہریانہ کے کسی چھوٹے سے گاؤں سے آئی تھی۔۔
جس کے باپ نے اسے پڑھا لکھا کر انجنئیر بنایا تھا۔
جو بنگلور کی کسی ٹیلی کام کمپنی میں ملازمت کرتی تھی۔
والدین سے دور کسی پرائیویٹ ہاسٹل میں رہتی تھی۔
جسے اس کی کمپنی نے ایک سال کے لئے اپنی امریکی شاخ میں کام کرنے کے لئے واشنگٹن بھیجا تھا۔
وہی لڑکیجس، سے مل کر میں ، ایک روایتی، تنگ نظر، جنوبی ایشیائی ذہنیت کی ماری ہوئی ،عام سی پاکستانی عورت حیران رہ گئی تھی۔
اس کی جگنووں جیسی روشن آنکھیں ، کشادہ پیشانی اور بے ریا مسکراہٹ دیکھ کر میں سوچ رہی تھی کہ کوئی لڑکی اپنے والدین سےالگ رہ کر بھی ۔ پڑھی لکھی اور ملازمت پیشہ ہو کر بھی ۔ ایسی سادہ دل ، ایسی معصوم، ایسی پیاری انسان کیسے ہو سکتی ہے ؟
وہ پچھلے مہینے اپنی انڈیا واپسی کے وقت ملنے آئی ، تو خوشی کی زیادتی سے کانپ رہی تھی ۔
اس کی فلائٹ اگلے دن شام کوروانہ ہونا تھی ۔ مگر اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ابھی اسی وقت ائیر پورٹ پر جا بیٹھے، اور واشنگٹن سے دلی پرواز کرنے والے جہازوں کو دیکھ دیکھ کر قربان ہوتی رہے۔
’’سمجھ میں نہیں آتا دیدی ، میں کیسے اڑ کر اپنے گھر پہنچ جاؤں، اپنی ماں کے پاس۔‘‘
وہ لڑکی ۔۔ جو نہ میرے ملک کی ہے ۔۔نہ میرے مذہب کی۔۔ مگر جس کے پہننے ، اوڑھنے اور اپنے آپ کو carry کرنےکے انداز میں مجھے کچھ بھی دعوت دیتا، اپنی طرف متوجہ کرتا ، کچھ بھی قابل گرفت نظر نہیں آیا۔
وہ لڑکی کچھ دن پہلے بخیر و عافیت اپنے دیش ،اپنے بھارت مہان ،واپس بھی پہنچ چکی ہے۔ اس نے بنگلور میں اپنی ملازمت بھی دوبارہ جوائن کر لی ہے ۔
مگر میرے دل میں وہم ہی وہم ہیں۔ میری روح سےاس کی سلامتی کی دعائیں نکل رہی ہیں ۔
وہ جو تنہا ، اپنے ماں باپ سے دور ، اپنے بہن بھائیوں کا مستقبل بنانے کے لئے سخت محنت کر رہی ہے ۔
جو ہر رات سونے سے پہلے لازمی ایک گھنٹہ روزانہ اپنی ماں کو ہریانہ فون کرکے اس سے بات کرتی ہے ۔
مجھے کہنے دیجئے کہ مجھے اس کی سلامتی کی فکر ہے۔
سی این این کہتا ہے کہ بھارت میں 2011 کے دوران عورتوں سے جنسی زیادتی کے 24,206واقعات پیش آئے ۔ صرف دلی شہر میں سال 2012 کے دوران جنسی زیادتی کے 600 واقعات رپورٹ ہوئے۔
دلی ،جہاں لڑکیاں ہیلمٹ پہن کر موٹر سائیکل چلاتی ہیں ۔ جہاں 21 سے 34 سال کی عمر کی 34 فی صد عورتیں شہر کی ورک فورس ، افرادی قوت کا حصہ ہیں ۔ جودنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور تیزی سے ابھرتی ہوئی عالمی معیشت کی راجدھانی ہے۔ دلی۔۔۔جسے ریپ کیپیٹل آف انڈیا کہا جاتا ہے۔
مگردنیا صرف دلی تو نہیں ۔ دنیاصرف انڈیا تو نہیں ۔ دنیا تو بہت بڑی ہے ۔
سات اعشاریہ چھ ارب انسانوں کی اس دنیا میں تین ارب سے زائد انسان، اسی عورت ذات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یعنی کل انسانی آبادی کا انچاس فیصد ۔ جس کے ساتھ دنیا بھر میں ہر سال جنسی زیادتی کے ڈھائی لاکھ واقعات پیش آ تے ہیں ۔
خود امریکہ میں ایک تنظیم کرائسس کنیکشن انک ڈاٹ آرگ کے اعدادو شمار کے مطابق ہر پینتالیس سیکنڈ میں ایک واقعہ جنسی زیادتی کا ہوتا ہے ۔ کالجزمیں پڑھنے والی ہر 7 میں سے ایک لڑکی جنسی تشدد کا سامنا کرتی ہے ۔ امریکہ میں بھی ایسے 61 فیصد واقعات رپورٹ نہیں کئے جاتے ۔ بالکل ویسے ہی ،جیسے دنیا کے اکثر ملکوں میں نہیں کئے جاتے۔
اور پاکستان کاکیا ذکر ۔۔؟ وہ تو اسلامی جمہوریہ ہے ۔ وہاں تو چادر اور چار دیواری کا تحفظ کئی سیاسی جماعتوں کا انتخابی نعرہ بنتا رہا ہے۔
لیکن کیا کروں ؟ کم بخت یادداشت میں کچھ اور نام سرسرا رہے ہیں ۔ دھندلےدھندلےسایوں کی طرح مٹے مٹے سے کچھ نام ۔ جو مختلف وقتوں پراخبارات اور نیوز چینلز کی ہیڈ لائنز بنے ۔ پس منظر بنے ۔ باسی خبر بنے۔
اور جن پر ہوئے ظلم کا حساب کسی نے کبھی نہیں دیا ۔
شائد کسی کو سبٓی کی ڈاکٹر شازیہ یاد ہوں ؟
نہیں ۔؟
اچھاتو شائد مختارمائی کے مجرموں کا عدالت سے بری ہونا یاد ہوگا ۔۔؟؟
نہیں ؟؟
اوہو، تو پھر ایک اعتدال پسند، روشن خیال ،فوجی حکمران کا وہ جملہ تو ضرور یادہوگا کہ پاکستان میں کوئی بھی عورت امریکہ کا ویزہ لینے کے لئے کسی پر بھی کوئی بھی الزام لگا سکتی ہے۔؟؟؟
نہیں یاد آیا ناں ۔۔؟؟؟
کوئی بات نہیں ۔۔آپ کا کوئی قصور نہیں۔
لیکن کل ایسا ہی کوئی واقعہ اور ہوگا۔
آپ کے شہر میں ۔۔آپ کی گلی میں ۔۔ آپ کے خاندان میں ۔۔بس!!
جب تک ایسا آپ کی اپنی بیٹی، اپنی بہن یا اپنی بیوی کے ساتھ نہیں ہوتا۔
خاموش رہئے ۔۔بالکل خاموش!!