’’میرا بچپن ایک ایسے معاشرے میں گزرا تھا جہاں پر کامک بکس آسانی سے دستیاب نہیں تھیں۔ ہمارے والد صاحب بہت مذہبی تھے۔ انہوں نے گھر میں کامک بک ہوں، کوئی ڈرائنگ بنانا ہو وہ اسے غلط سمجھتے تھے‘‘ ۔
یہ الفاظ ہیں ایوارڈ یافتہ پاکستانی صحافی اور آزادی اظہار کے سرگرم کارکن طحہ صدیقی کے ، جو 2018 سے پیرس میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان کی آٹو بائیو گرافی پر مبنی کامک کتاب ’’دی ڈسڈ نٹ کلب‘‘ اس ہفتے فرانس میں ریلیز ہوئی ہے ۔
وائس آف امریکہ سے بذریعہ سکائپ بات کرتے ہوئے طحہ صدیقی نے کہا کہ جو کام وہ بچپن میں نہیں کرپائے انہوں نے اب آکر اسے کرنے کا سوچا۔
’’فرانس سمیت یورپ بھر میں مزاحیہ ، گرافک سٹائل میں آٹو بائیو گرافی لکھنا بہت عام اور پسندیدہ سمجھا جاتا ہے ،اور کچھ مصنف دوستوں نے بھی مشورہ دیا کہ میں کامک بک یا گرافک ناول سٹائل میں کچھ لکھوں‘‘۔
طحہ صدیقی پاکستان میں رہتے ہوئے بہت سے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اور طالبان کی جانب سے پولیو ویکسین پر پابندی پر رپورٹنگ کے لیے ممتاز البرٹ لونڈریس انعام بھی جیت چکے ہیں ۔
اپنے انٹرویو میں طحہ نے کہا کہ ان کی اس کتاب کا آغاز 10 جنوری 2018 کو ان کے ساتھ رونما ہونے والے اغوا کے ایک واقعے سے ہوتا ہے۔
’’اس دن میں اسلام آباد ائیرپورٹ جا رہا تھا جب نامعلوم مسلح افراد نے مجھے اغوا کرنے کی کوشش کی لیکن میں بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا ‘‘۔
وہ کہتے ہیں اپنی رپورٹس میں پاکستانی فوج پر تنقید کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا گیا،جن میں خاص طور پر نیویارک ٹائمز کے پہلے صفحے پر خفیہ جیلوں کو بے نقاب کرنے والی رپورٹ بھی شامل ہے۔
پاکستانی حکومت اور سیکیورٹی کے ادارے ایسے الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں کہ ریاستی ادارے جبری گمشدگیوں کے واقعات میں ملوث ہیں۔
طحہ صدیقی کہتے ہیں کہ ان کی اس نئی کتاب میں گرافک کی شکل میں بچپن سے لے کر جوانی تک کے واقعات کا ذکر ہے ۔ انہوں نے اپنی زندگی کے16 سال سعودی عرب میں گزارے۔
’’یہ میری اپنی کہانی بھی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس وقت معاشرے میں جو کچھ ہو رہا تھا اس کی کہانی بھی ہے ،1980 میں اس وقت جب افغان جہاد جاری تھا، اس کتاب میں اس کا خاصا ذکر ہے کیونکہ میرے تایا اس جہاد کا حصہ تھے ، اسی طرح میرے والد کا انتہاپسند ہوجانا ،یہ سب میں بچپن سے دیکھتا آیا تھا ‘‘۔
کارٹونسٹ ہیوبخ موغے اس کتاب کے شریک مصنف اور کارٹونسٹ ہیں۔ وہ پہلے پاکستان میں فرانسیسی سفارت کاررہ چکے ہیں ۔اس سے پہلے وہ دو کتابیں پاکستان پر لکھ چکے ہیں ۔
خبررساں ادارے ایسویسی ایٹڈ فرانس پریس سے بات کرتے ہوئے ہیوبخ موغے کا کہنا تھا کہ طحہ صدیقی کی کہانی متاثر کن اور قابل ذکر ہے۔
’’طحہ نے نہ صرف اپنی زندگی بلکہ جلاوطنی بھی خطرے میں ڈالی اور اپنے خاندان سے تعلقات منقطع کر لیے‘‘۔
اس کامک کتاب میں نائن الیون دور کی داستانیں بھی ہیں ، جب طحہ صدیقی سعودی عرب سے واپس پاکستان آ کر بس گئے تھے ۔
اس کتاب میں اس وقت کے بھی حالات دکھائے گئے ہیں جب طحہ صدیقی سٹوڈنٹ تھے اور جنرل مشرف کا دور تھا ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ بحیثت نوجوان وہ اس وقت فوج کے بارے میں کیا سوچتے تھے ۔ یونیورسٹی میں پڑھائے جانے والے مضامین پر سوالات اٹھاتے تھے اور یہ کہ بالآخروہ کس طرح صحافی بنے۔
’’جب میں نے انٹرنیشنل میڈیا کے لیے رپورٹنگ شروع کی تو میری رپورٹنگ پر آئی ایس پی آر کے لوگوں نے ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا ۔ اس دوران مجھ پر پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ نامی قانون کے تحت ایف آئی درج ہوئی ، جس میں عاصمہ جہانگیر صاحبہ میری وکیل تھیں ۔کتاب میں دکھا یا گیا ہے کہ کس طرح انہوں نے میری مدد کی ‘‘۔
کتاب میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح آہستہ آہستہ پاکستان میں ان کی زندگی تنگ ہوتی گئی ، اور جب ان پر حملہ کیا گیا تو حالات نے انہیں کس طرح پاکستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا ۔
طحہ صدیقی اور ان جیسے کئی صحافیوں کے ایسے دعووں پر ردِّعمل کے لیے وی او اے نے ہمیشہ کی طرح اس رپورٹ کے لیے بھی پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامّہ (آئی ایس پی آر) کا موقف بھی جاننا چاہا مگر تاحال کوئی جواب نہیں مل سکا ہے ۔
طحہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پیرس آنے کے بعد فرانسیسی اور امریکی ایجنسیوں کے لوگوں نے ان سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ ان کا نام ’’کل لسٹ ‘‘ میں ہے اور اگر وہ کبھی بھی پاکستان گئے تو مار دیے جائیں گے ۔
’’بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ نے پاکستان چھوڑ دیا تو اب تو آپ محفوظ ہو گئے ہوں گے ، یہ درست نہیں ہے ، بہت سے ایسے جلاوطن پاکستانی ہیں جن کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو تشویش ناک ہیں۔ مجھے ابھی بھی دھمکیوں بھری فون کالز آتی ہیں۔ میرے کام کی جگہ پر لوگ آکر مجھے تنگ کرتے ہیں ۔ پاکستان میں میرے خاندان کے افراد کو ابھی بھی ہراساں کیا جاتا ہے ‘‘۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ ٹرانس نیشنل رپرشن ہے یعنی آپ اپنے ملک میں نہیں ہیں لیکن پھر بھی آپ کے خلاف کاراوائیاں جاری ہیں ۔
پیرس میں رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز(RSF) سے منسلک ڈینیل بتاخ کا کہنا ہے کہ اس طرح کے حربے اور واقعات بتاتے ہیں کہ RSF کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان کی پوزیشن کافی نیچے کیوں ہے۔
’’ تمام کیسز ایک جیسے نہیں ہیں ، لیکن حالیہ برسوں میں ایک جیسا رجحان دیکھنے میں آیا ہےجس کے ذریعے بیرون ملک جانے والے پاکستانی صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا رہا ہے۔ ارشد شریف کا کیس ان میں انتہائی نوعیت کا ہے، جو اپنے ہی ملک اور پھر متحدہ عرب امارات سے فرار ہونے کے بعد کینیا میں مارے گئے ۔ اسی طرح ساجد حسین کا لرزہ خیز اور پراسرار قتل، جن کی لاش سویڈن میں ایک دریا سے ملی تھی۔ ان خطرات کی ایک اور مثال ہے ۔اسی طرح ہالینڈ میں احمد وقاص گورایہ کے خلاف حملے اور قتل کی کوشش ایک اور کیس ہے‘‘۔
ڈینیل کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں کچھ ریاستی ادارے، جو پہلے ہی اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ صحافی کیا لکھ سکتے ہیں اور کیا نہیں کہہ سکتے، وہ پاکستانی میڈیا میں بھی آوازوں کو ایسے موضوعات پر بولنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ممنوع ہیں۔
پاکستانی حکام کا دعوی ہے کہ پاکستان آزاد میڈیا کے کردار کی قدر کرتا ہے۔
موجودہ حالات میں میڈیا کی آزادی کے حوالے سے وائس آف امریکہ نے وفاقی وزیر اطلاعات اور نشریات مریم اورنگزیب سے رابطہ کیا ہے ، لیکن تاحال ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا ہے ۔
طحہ صدیقی نے پاکستان کیسے چھوڑا
’’10 جنوری 2018 کو کسی کام کے سلسلے میں اسلام آباد ائیرپورٹ سے لندن جا رہا تھا ،جب راستے میں کچھ نامعلوم مسلح افراد نے میری ٹیکسی روکی اور مجھے زبردستی دوسری گاڑی میں بٹھایا ‘‘۔
طحہ کہتے ہیں کہ انہیں اس وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور وہ کون لوگ ہیں ۔ گاڑی کا دروازہ کھلا پا کر کسی نہ کسی طرح وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔
اس کے فورا بعد انہوں نے قریبی تھانے میں ایف آئی آر جمع کرائی اور اپنے اوپرہونے والے حملے اور اغوا کی کوشش کے بارے میں ایک پریس کانفرنس کی۔
اس واقعے کو ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں خاصی کوریج ملی ۔
’’ایف آئی آر میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ۔ مجھے پولیس پروٹیکشن دی گئی ، لیکن میڈیا میں میرے دوستوں اور میرے خاندان والوں نے مجھے خاموش رہنے یا ملک سے چلےجانے کا مشورہ دیا ، تو میں بالآاخر اپنے بیوی اور بچے سمیت فرانس آگیا‘‘۔
"ڈیسیڈنٹ کلب"
طحہ صدیقی گزشتہ تین سالوں سے پیرس میں’’ڈیسیڈنٹ کلب ‘‘ے نام سے ایک بار چلاتے ہیں ، جہاں پر دیگر لوگوں کے علاوہ روسی ، چینی ، ایرانی ، یوکرینی اور افغان سیاسی جلاوطن اور پناہ گزین افراد آتے ہیں اورسیاسی اور ثقافتی سرگرمیوں کے علاوہ مختلف موضوعات پر بحث و مباحثے ہوتے ہیں ۔اس کے علاوہ وہ جنوبی ایشیا میں میڈیا سینسرشپ سے متعلق ڈیجیٹل پلیٹ فارم سیف نیوزروم ڈاٹ آرگ کے بانی ہیں۔