تائیوان: غیر ملکی لڑکیوں سے شادی کے رجحان میں اضافہ

تائیوان کی ایک خاتون رکنِ اسمبلی کی جانب سے مردوں کی بیرونِ ملک شادیوں پر تنقید کے بعد اسمبلی کے اندر اور باہر ان کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا ہے۔

تائیوانی مردوں کی غیر ملکی خواتین سے شادیوں کا شمار اس جزیرہ نما ملک کے اہم سماجی مسئلوں میں ہوتا ہے۔ ان شادیوں کے مخالفین کا کہنا ہے کہ مردوں کی غیر ملکی خواتین سے شادیوں کے باعث مقامی خواتین کی ایک بڑی تعداد کنواری رہ جاتی ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس وقت لگ بھگ چار لاکھ 27 ہزار تائیوانی مرد وں کی غیر ملکی بیویاں ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق چین اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے ہے۔ جب کہ ایک اندازے کے مطابق 30 سال سے زائد عمر کی ایک تہائی تائیوانی خواتین غیر شادی شدہ زندگی گزار رہی ہیں۔

سابق مصنفہ اور حزبِ اختلاف کی خاتون رکنِ اسمبلی چینگ شو فونگ نے تائیوانی مردوں میں نسبتاً غریب پڑوسی ممالک کی خواتین سے شادیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان پر کڑی تنقید کی ہے۔

نئے تارکینِ وطن کے مسئلہ پر اسمبلی میں ہونے والی بحث کے دوران میں ایک چھوٹی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والی خاتون رکنِ اسمبلی کا کہنا تھا کہ تائیوانِی مردوں کی بیرونِ ملک شادیوں سے "قوم کو بہت نقصان" پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت ملک کی غیر شادی شدہ خواتین کو زرِ تلافی دینے کی پیش کش کرے۔

شو فونگ کی اس تنقید پر کئی سیاست دانوں اور سماجی تنظیموں نے سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔

تائیوان کی معروف سیاسی جماعت 'ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی' نے خاتون رکنِ اسمبلی کی جانب سے غیر شادہ شدہ خواتین کا مسئلہ اٹھانے کو انہیں "مسترد شدہ" قرار دینے کے مترادف ٹہرایا ہے اور کہا ہے کہ غیر ملکی بیویوں کے تائیوانی سماج میں گھلنے ملنے میں دشواری کا تاثر درست نہیں ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ نے بھی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ تائیوانی شہریوں کے غیر ملکیوں سے شادیوں کے معاملے پر قانون سازی سے گریز کرے۔

تائیوانی باشندوں کی غیر ملکی بیویوں کے ایک گروہ نے بھی یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ ملکی خواتین کی طرح 'اچھی بیوی' بننے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں دارالحکومت تائی پے میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔

دریں اثنا تائیوانی خواتین کے بعض حلقوں نے بھی قانون سازوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بحث سے دور رہیں اور یہ فیصلہ خواتین پر چھوڑ دیں کہ وہ شادی کرنا چاہتی ہیں یا اکیلے ہی زندگی گزارنے کی خواہاں ہیں۔

یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ بیرونِ ملک بیویاں تلاش کرنے والے تائیوانی مردوں کی اکثریت معاشی طور پر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتی ہے جو اپنی تنگ دستی کے باعث معاشی طور پر مضبوط اور فعال کردار ادا کرنے والی تائیوانی خواتین کو لبھانے میں ناکام رہتے ہیں۔

لیکن یہ مسئلہ محض تائیوان تک ہی محدود نہیں۔ جنوبی کوریا اور چین کے امیر شہروں میں بسنے والی خواتین بھی پیشہ وارانہ زندگی میں آگے اور معاشی طور پر مستحکم ہونے کی وجہ سے مقامی مردوں کے لیے پرکشش نہیں رہی ہیں جنہیں اب بھی صنفی تفریق کے روایتی نظریات کے باعث ایسی بیویوں کی تلاش ہوتی ہے جو ملازمت اور کاروبار کے بجائے گھر کو وقت دے سکیں۔