اسلام آباد ہائی کورٹ نے امریکہ میں دہشت گردی کے مبینہ منصوبہ کے شریک ملزم کی امریکہ حوالگی کے معاملے میں حکم امتناعی میں توسیع کر دی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ آئندہ سماعت تک ملزم کو امریکہ کے حوالے نہ کیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے اڈیالہ جیل میں قید پاکستانی نژاد امریکی شہری طلحہ ہارون کی امریکہ حوالگی کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
طلحہ ہارون کے وکیل نے بتایا کہ امریکہ نے اس کے موکل پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کا الزام لگایا لیکن ثبوت کوئی نہیں دیئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا دوسرے ملزم کے ساتھ کی گئی کمیونیکیشن ریکارڈ پر موجودہے؟ دوسرے ملزم کے ساتھ ہارون کا رابطہ ہوا تھا، وہ تو آپ مانتے ہیں۔ وکیل نے جواب دیا طلحہ کا کمپیوٹر قبضے میں لیا گیا تھا لیکن اس سے کچھ بھی نہیں ملا۔
طلحہ ہارون کے وکیل ایڈوکیٹ ادریس نے کہا کہ امریکہ میں ایک انڈر کور شخص نے نیویارک میں دھماکوں کے لئے طلحہ ہارون سے رابطہ کیا۔ طلحہ نے متعلقہ شخص کو کوئی جواب نہیں دیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ آیا امریکہ نے پاکستان کو ثبوت فراہم کئے ہیں؟ وکیل نے بتایا کہ جس شخص نے دھماکوں کے لئے طلحہ ہارون سے رابطہ کیا تھا، وہ نیو یارک میں گرفتار ہو گیا تھا۔ وکیل کا کہنا تھا کہ ماضی میں ایمل کانسی پر جرم ثابت ہوا تھا تو پاکستان نے اسے امریکہ کے حوالے کر دیا۔ سابق صدر پرویز مشرف نے 470 پاکستانیوں کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا۔ جس کی تصدیق خود انہوں نے اپنی کتاب میں کی ہے، طلحہ ہارون پر ابھی تک کسی جرم کرنے کا الزام نہیں ہے۔
عدالت نے آئندہ سماعت تک حکم امتناعی برقرار رکھتے ہوئے طلہ ہارون کو سی آئی اے کے حوالے نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
حساس اداروں نے پاکستان نژاد امریکی شہری طلحہ ہارون کو 13 اگست 2016 کو کوئٹہ سےحراست میں لیا تھا۔ اس پر داعش کی مدد سے نیویارک میں دھماکوں کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام ہے۔ تاہم یہ منصوبہ امریکی ایجنسیوں کی بروقت کاررروائی کے باعث کامیاب نہیں ہو سکا تھا اور منصوبے میں شریک زیادہ تر افراد امریکہ میں ہی گرفتار ہو گئے تھے، لیکن طلحہ ہارون فرار ہو کر پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
پاکستان میں گرفتاری کے بعد امریکی حکام نے پاکستان سے رابطہ کر کے طلحہ ہارون کی حوالگی کا مطالبہ کیا اور انٹرپول نے اس کے ریڈ وارنٹ جاری کیے۔
اس سلسلے میں وزارت داخلہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں طلحہ ہارون کی امریکہ حوالگی کے حکومتی اقدام کو قانون کے مطابق قرار دیا ہے۔
وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو انکوائری افسر مقرر کیا گیا جنہوں نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ وہ طلحہ ہارون کے خلاف امریکہ کے فراہم کردہ شواہد سے مطمئن ہیں۔
وفاقی وزارت خارجہ کی نگرانی میں ایف آئی اے نے طلحہ ہارون کو امریکہ کے حوالے کرنا تھا، تاہم ہائی کورٹ کے حکم امتناعی کے بعد یہ کارروائی روک دی گئی۔ وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ طلحہ ہارون پیدائشی امریکی شہری ہے اور وہ پاکستان میں ویزے لے کر داخل ہوا تھا۔
طلحہ ہارون اس وقت اڈیالہ جیل راول پنڈی میں قید ہے۔
پاکستانی نژاد غیر ملکی افراد کا بیرون ملکوں میں مختلف جرائم کے ارتکاب کے بعد فرار ہو کر پاکستان آنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ماضی میں ٹرانس اٹلانٹک بم حملوں کا مبینہ ماسٹر مائنڈ برطانوی نژاد پاکستانی راشد رؤف پاکستان میں گرفتار ہوا تھا اور بعد ازاں پولیس اہل کاروں کی غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھاگ نکلا۔ بعض اطلاعات کے مطابق وہ وزیرستان میں ایک ڈرون حملہ میں مارا گیا تھا۔