عید الفطر کی مناسبت سے افغانستان میں طالبان نے تین روز کے لیے افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔
افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کی طرف سے تین روزہ جنگ بندی کے فیصلے کا خیرم مقدم کرتے ہوئے افغان سیکیورٹی فورسز کو بھی حملے روکنے کا حکم دیا ہے۔
طالبان کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے۔ جب حال ہی میں افغان حکومت اور طالبان کی طرف سے حملوں میں تیزی آئی ہے۔ جس کے بعد امریکہ سمیت عالمی برادری نے فریقین سے تشدد کی کارروائیوں میں کمی کا مطالبہ کیا ہے۔
طالبان اور فورسز کے درمیان جھڑپوں اور حملوں کا سلسلہ افغانستان میں کرونا وائرس پھیلنے کے باوجود بھی جاری رہا۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے طالبان عسکریت پسندوں سے کہا کہ وہ کسی جگہ بھی دشمن پر حملہ نہ کریں۔ البتہ اگر دشمن کی جانب سے کوئی حملہ ہوتا ہے تو اس کا بھرپور جواب دیں۔
طالبان ترجمان نے واضح کیا کہ جنگ بندی صرف عید کے تین روز کے لیے ہے۔ جس کا آغاز اتوار سے ہو رہا ہے۔
طالبان ترجمان نے کہا کہ ہم وطنوں کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں تاکہ وہ خوشی سے عید منا سکیں۔ ان کی سلامتی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
دوسری طرف افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کی طرف سے تین روزہ جنگ بندی کا خیرم مقدم کرتے ہوئے طالبان کو امن کی پیش کش کی ہے۔
صدر غنی نے ایک ٹوئٹ میں بطور کمانڈر ان چیف ‘افغان نیشنل ڈیفنس اور سیکیورٹی فورسز’ کو ہدایت کی وہ تین روزہ جنگ بندی کی پابندی کریں اور صرف حملے کی صورت میں اپنا دفاع کریں ۔
یاد رہے کہ افغان حکومت نے ماہ رمضان کے آغاز پر طالبان سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم طالبان نے جنگ بندی کا مطالبہ کرنا غیر منطقی قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
اس سے قبل 2018 میں عید الفطر کے موقع پر طالبان نے پہلی بار افغان حکومت کی تین روزہ جنگ بندی کی پیش کش کو قبول کیا تھا۔
ادھر امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے طالبان کی طرف سے عید پر تین روز کے لیے جنگ بندی کے فیصلے اور افغان حکومت کی طرف سے بھی جواب میں تین روزہ جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔
خلیل زاد نے کہا کہ جنگ بندی کے بعد دوسرے مثبت اقدامات پر عمل ہونا چاہیے۔ جن میں امریکہ طالبان معاہدے کے مطابق افغان حکومت اور طالبان کی طرف سے باقی ماندہ قیدیوں کی رہائی ،تشدد کی کارروائیوں میں کمی اور بین الافغان مذاکرات کے لیے نئی تاریخ کا تعین کرنا بھی شامل ہے۔
خلیل زاد نے افغان حکومت اور طالبان سے کہا کہ یہ ایک اہم موقع ہے اور اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
خلیل زاد نے مزید کہا کہ اب بھی ان دو محاذوں پر مشکل چیلنجز موجود ہیں۔ لیکن ان کو توقع ہے کہ اگر افغان حکومت اور طالبان کی قیادت نے اپنے عوام کی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے درست فیصلے کیے۔ تو ان مشکلات کو حل کر لیا جائےگا۔
انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کے اعلان نے افغان امن عمل کو تیز کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
یادر ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں سال 29 فروری کو طے پانے والے معاہدے کے تحت افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کا ٹائم ٹیبل طے ہوا تھا۔
معاہدے کے تحت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے بعد رواں سال 10 مارچ سے بین الافغان مذاکرات کا بھی آغاز ہونا تھا۔ لیکن قیدیوں کی تبادلے میں سست روی کی وجہ سے بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ بھی شروع نا ہو سکا۔
خلیل زاد نے کہا کہ حال ہی میں انہوں نے دوحہ میں طالبان نمائندوں اور کابل میں افغان سیاسی قیادت سے ملاقاتیں کی تھیں۔ تاکہ امریکہ طالبان معاہدے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔
ادھر پاکستان نے عید الفطر کے موقع پر طالبان اور افغان حکومت کی طرف سے جنگ بندی کے اعلانات کا خیر مقدم کیا ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے اتوار کے روز ایک ٹوئٹ میں افغان عوام کو عید کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کے لیے دعا گو ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ تین روزہ جنگ بندی کے نتیجے میں افغانستان میں طویل مدت کے لیے تشدد میں کمی کے لیے راہ ہموار ہو سکتی ہے۔