پاکستان نے کہا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان امن بات چیت کا دوسرا دور موخر کر دیا گیا ہے۔
جمعرات کو دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق طالبان کے امیر ملا عمر کی موت کی اطلاعات سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال اور افغان طالبان کی قیادت کی طرف سے درخواست پر بات چیت کا دوسرا دور مؤخر کیا گیا ہے جو کہ جمعہ کو پاکستان میں منعقد ہونے جا رہا تھا۔
افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان پاکستان کی میزبانی میں پہلے براہ راست مذاکرات کا سلسلہ رواں ماہ کے اوائل میں اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقام مری میں شروع ہوا تھا جس میں اس عمل کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
بدھ کو یہ خبریں منظر عام پر آئیں کہ افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر انتقال کر چکے ہیں جس کی تصدیق کرتے ہوئے افغان حکومت کا کہنا تھا کہ ان کی موت دو سال قبل واقع ہوئی تھی۔
قبل ازیں جمعرات کو ہی طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک پیغام میں کہا تھا کہ قطر میں واقع ان کے گروپ کا دفتر بات چیت کے کسی بھی دور کے بارے میں لاعلم ہے۔
"ہمیں ذرائع ابلاغ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ کابل انتظامیہ اور امارات اسلامی (طالبان اپنے گروپ کے لیے یہ نام استعمال کرتے ہیں) کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور جلد پاکستان یا چین میں ہو رہا ہے۔ امارات اسلامی نے اس بارے میں تمام اختیار (دوحا، قطر میں واقع) اپنے دفتر کو دے رکھا اور وہ اس عمل سے ناواقف ہیں۔"
لیکن پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان اور افغانستان کے دیگر دوست ممالک امید کرتے ہیں کہ طالبان کی قیادت افغانستان میں دیرپا امن کے فروغ کے لیے امن بات چیت کے عمل میں شامل رہے گی۔
مزید برآں اس امید کا اظہار بھی کیا گیا کہ ایسی قوتیں جو اس عمل کو ناکام کرنے کی مذموم سوچ رکھتی ہیں وہ اپنے منصوبے میں ناکام ہوں گی۔
بدھ کو ایک بیان میں افغان صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کا ماننا ہے کہ امن بات چیت کی راہ پہلے کی نسبت زیادہ ہموار ہو گئی ہے، ’’لہذا تمام مسلح حزب مخالف سے مطالبہ کیا جاتا ہے وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور امن عمل میں شرکت کریں۔‘‘