فغانستان کے شمال میں افغان سیکورٹی فورسز پر ہونے والے طالبان باغیوں کے الگ الگ حملوں میں اطلاعات کے مطابق کم ازکم 37 اہلکار ہو گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ' ایسوسی ایٹڈ پریس ' نے قندوز صوبے کی صوبائی کونسل کے سربراہ محمد یوسف ایوبی کے حوالے سے بتایا ہے کہ دشت آرچی ضلع میں اتوار کی رات ایک چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے میں 13 اہلکار ہلاک ہو گئے جبکہ 15 دیگر زخمی ہوئے جس کے بعد سیکورٹی فورسز اور طالبان حملہ آوروں کے درمیان لڑائی شروع ہو گئی جو پیر کی صبح تک جاری رہی۔
دوسری طرف جوزجان صوبے کی پولیس کے سربراہ جنرل فقیر محمد جوزجانی نے کہا کہ طالبان نے خمیاب ضلع پر مختلف اطراف سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں افغان سیکورٹی فورسز کو ضلعی ہیڈکواٹر سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا تاکہ عام شہریوں کے جان و مال کو نقصان سے بچایا جا سکے۔
جوزجانی نے کہا کہ " لڑائی شدید تھی اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ عام شہریوں کے مکان تباہ ہوں اور انہیں کسی قسم کا جانی نقصان پہنچے۔" انہوں نے کہا کہ کم ازکم آٹھ پولیس اہلکار ہلاک اور تین دیگر زخمی ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس لڑائی میں کم ازکم سات طالبان باغی ہلاک جبکہ آٹھ زخمی ہوئے۔
طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد نے قندوز اور جوزجان میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
سمنگان صوبے کے صوبائی ترجمان صادق عزیزی نے کہا کہ درہ سف ضلع میں طالبان نے مقامی پولیس اور حکومت نواز ملیشا کے 14 اہلکاروں کو ہلاک کیا ہے جبکہ چھ دیگر زخمی ہوئے۔ عزیز نے مزید کہا کہ پیر کی صبح ہونے والی لڑائی کے دوران تین طالبان جنگجو ہلاک جبکہ چار دیگر زخمی ہوئے۔
سمنگان حملے کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی ہے۔ تاہم عزیز نے اس حملے کا الزام صوبے میں سرگرم طالبان پر عائد کیا ہے جو اکثر سیکورٹی فورسز اور مقامی حکومت نواز ملیشیا پر حملے کرتے ہیں۔
ایک دوسری رپورٹ کے مطابق سری پل صوبے کی پولیس کے سربراہ جنرل عبدالقیوم باقی زئی نے کہا کہ صوبائی دارالحکومت سری پل کے قریب واقع فوج اور حکومت نواز ملیشیا کی ایک چیک پوسٹ پر حملہ ہوا جس میں حکومت نواز ملیشیا کے دو اہلکار ہلاک ہوے۔ تاہم انہوں نے اس حملے کی تفصیل بیان نہیں کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ " طالبان کے حملے کو پسپا کر دیا گیا ہے لیکن شہر کے نواح میں بعض اوقات لڑائی بھی شروع ہو جاتی ہے۔ تاہم طالبان نے سری پل صوبے میں لڑائی کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا ہے۔