افغان حکام کے مطابق ملک کے جنوبی صوبے میں سیکڑوں طالبان جنگجووں اور افغان فورسز کے درمیان گزشتہ پانچ روز سے شدید لڑائی جاری ہے جس میں اب تک سیکڑوں افراد مارے جاچکے ہیں۔
افغان صوبے ہلمند کی حکومت کے ترجمان عمر زواک نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ پانچ روز قبل لگ بھگ 800 طالبان جنگجووں نے صوبے کے ضلع سنگین میں سرکاری دفاتر اور پولیس چوکیوں پر حملہ کیا تھا۔
ترجمان کے مطابق حملے کے بعد افغان فوج نے علاقے میں جنگجووں کے خلاف کارروائی شروع کی تھی جو تاحال جاری ہے۔
ترجمان نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ جنگجووں اور سرکاری فوج کے درمیان جھڑپیں مکمل جنگ کی صورت اختیار کرچکی ہیں اور افغان فوج کے مزید تازہ دم دستے علاقے میں بھجوادیے گئے ہیں۔
صوبے کے پولیس سربراہ عبدالقیوم باقی زوئی کے مطابق پانچ روز سے جاری لڑائی میں اب تک 100 طالبان جنگجو اور لگ بھگ 40 عام شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔
پولیس سربراہ کے مطابق 13 پولیس اور آٹھ افغان فوجی اہلکار بھی جھڑپوں میں مارے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ ہلمند افغانستان میں کاشت کی جانے والی افیون کی بیرونِ ملک اسمگلنگ کا اہم راستہ ہے جس کے کئی اضلاع پر مشیاوت فروشوں اور طالبان کا قبضہ ہے۔
ضلع سنگین کے ایک قبائلی رہنما عطاء اللہ افغان نے برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کے حملوں کا مقصد سرحد کی طرف جانے والے ایک راستے کی ناکہ بندی ختم کرانا تھا تاکہ وہاں سے منشیات اسمگل کی جاسکے۔
افغان اور امریکی حکام کا الزام ہے کہ افغان طالبان منشیات کی اسمگلنگ کے ذریعے اپنی مزاحمت جاری رکھنے کے لیے درکار مالی وسائل اکٹھا کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ افغانستان افیون پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔