افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ جاری حالیہ کشیدگی میں حماس کے جنگجوؤں کے ساتھ مل کر لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
طالبان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پوسٹ کی جانے والی اس تحریر کی تردید میں بیان جاری کیا ہے جس کے مطابق افغان طالبان اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جھڑپوں میں حصہ لینے کے لیے وہاں جانا چاہتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر پھیلنے والی اس پوسٹ نے طالبان کو مشکل سے دو چار کردیا ہے کیوں کہ اس کی تردید کرکے انہوں نے حماس کی عملی حمایت سے دوری اختیار کی ہے جو ان کے اپنے حامی علاقوں میں برہمی کا باعث بن سکتی ہے۔
ایک نقشے کے ساتھ تحریر اتوار کو سوشل میڈیا پر ’طالبان پبلک ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ‘ نامی اکاؤنٹ سے شیئر کی گئی تھی۔ تاہم بعد میں ایکس پر اس اکاؤنٹ کا نام ’فری فلسطین‘ کر دیا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر یہ پوسٹ 25 لاکھ سے زائد مرتبہ دیکھی گئی اور بعض خبر رساں اداروں نے اس میں دی گئی معلومات کو رپورٹ بھی کیا۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں قائم طالبان کے سیاسی آفس کے سربراہ سہیل شاہین نے صحافیوں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں اس خبر کو غلط قرار دیا۔
انہوں نے طالبان کا حماس کے جنگجوؤں کا ساتھ دینے کے لیے جانے سے متعلق اس خبر کو غلط، افواہ اور غیر مصدقہ قرار دیا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس معاملے پر طالبان وزارتِ خارجہ اپنا بیان جاری کر چکی ہے اور وہی ہمارا مؤقف ہے۔
طالبان وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ غزہ کے حالیہ واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان فسلطینی لوگوں کی آزادی اور مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے دفاعی اقدامات یا مزاحمت کو ان کا حق سمجھتی ہے۔
ہفتے کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل اور فلسطینی عسکری گروپ کے درمیان تصادم کا آغاز ہوا تھا جس کے بعد سے یہ جھڑپیں چوتھے روز بھی جاری ہیں۔
واضح رہے کہ حماس ان گروپس میں شامل تھی جس نے طالبان کو دوبارہ برسرِ اقتدار آنے پر مبارک باد پیش کی تھی۔
ماضی میں حماس اور طالبان کے رہنماؤں میں کئی مرتبہ ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں۔
SEE ALSO: اسرائیل پر حملہ کرنے والی عسکری تنظیم حماس کیسے قائم ہوئی؟طالبان کے لیے مشکل پوزیشن
امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم ’انسٹیٹیوٹ آف کرنٹ ورلڈ افیئرز‘ کے پروگرام ڈائریکٹر ہاشم وحدت نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حماس کی عملی حمایت سے متعلق پوسٹ کی تردید کرکے طالبان ایک مشکل پوزیشن میں آگئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان حماس کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں اور مستقبل میں اسے سیاسی یا عسکری مدد فراہم کرسکتے ہیں۔ لیکن وہ ایسے کسی اقدام کی تشہیر نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان دوحہ معاہدے کے تحت پابند ہیں کہ اپنی سرزمین سے امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے کسی بھی خطرے کی روک تھام کریں گے۔ اسرائیل امریکہ کا اتحادی ہے اس لیے طالبان کبھی حماس کے لیے اپنی حمایت کی تشہیر نہیں کریں گے۔
یونیورسٹی آف نبراسکا کے ’سینٹر فار افغانستان اسٹڈیز‘ کے ڈائریکٹر شیر جان احمد زئی کا کہنا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری لڑائی میں طالبان کی شرکت دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ طالبان مشرقِ وسطیٰ میں پیدا ہونے والے کسی تنازع میں براہِ راست شریک ہوئے ہوں۔
احمد زئی کا کہنا تھا کہ طالبان باقاعدہ طور پر اس تنازعے میں شریک نہیں ہوئے۔ لیکن ان کی صفوں میں ایسے جنگجو ہو سکتے ہیں جو عالمی جہاد کے تصور پر یقین رکھتے ہوں اور فلسطینیوں اور اسرائیل کے تنازع میں شرکت کو مذہبی فریضہ خیال کرتے ہوں۔
Your browser doesn’t support HTML5
بیانات کی حد تک حمایت
افغان سیاسی تجزیہ کار واحد فقیری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان قیادت خود کو کسی بھی غیر ملکی تنازعے سے دور رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان کے مطابق طالبان کو اندازہ ہے کہ اگر انہوں ایسا کرنے کی کوشش کی تو انہیں امریکہ کی جانب سے مزید معاشی پابندیوں اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق افغانستان کو اس وقت دنیا کے سب سے بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے کیوں کہ اس کی دو تہائی آبادی کو بنیادی ضروریات کے لیے امداد کی ضرورت ہے۔
کیلی فورنیا کے نیول پوسٹ گریجویٹ اسکول کے نیشنل سیکیورٹی افیئرز ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ محقق پروفیسر تھامس جانسن کا کہنا ہے کہ طالبان کی پوزیشن انتہائی اسرائیل مخالف رہی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ طالبان کے پاس ایسے وسائل ہیں کہ وہ سوائے بیانات کے حماس کی براہِ راست کسی قسم کی مدد کے قابل ہوں۔