طالبان نے اپنے بانی رہنما ملا عمر کے زیرِ استعمال رہنے والی اُس گاڑی کو زمین کھود کر نکال لیا ہے جسے لگ بھگ 20 برس قبل زیرِ زمین چھپادیا گیا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس گاڑی کو قومی عجائب گھر میں رکھا جائے گا۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق طالبان حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد ملا عمر اسی گاڑی میں سوار ہو کر قندھار سے صوبہ زابل پہنچے تھے۔
سفید رنگ کی اس ٹویوٹا کرولا گاڑی کو زابل میں ایک گھر کی دیوار کے ساتھ زمین میں گہرا گڑھا کھود کر چھپایا گیا تھا جسے چند روز قبل ہی واپس نکالا گیا ہے۔
زابل صوبے کے ڈائریکٹر اطلاعات و ثقافت رحمت اللہ حماد کے مطابق ملا عمر کی گاڑی درست حالت میں ہے اور صرف اس کا اگلا حصہ معمولی متاثر ہوا ہے۔
رحمت اللہ حماد کے بقول، "اس گاڑی کو 2001 میں مجاہدین نے زیرِ زمین چھپا دیا تھا تاکہ ملا عمر کی اس یادگار کو محفوظ رکھا جا سکے۔"
طالبان کے میڈیا آفیشلز نے ملا عمر کے زیرِ استعمال گاڑی کو نکالنے کے لیے کھدائی کی تصاویر جاری کی ہیں جس میں چند افراد کو زمین کھود کر گاڑی نکالتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
رحمت اللہ حماد کے مطابق طالبان چاہتے ہیں کہ اس گاڑی کو دارالحکومت کابل کے نیشنل میوزیم میں رکھا جائے کیوں کہ یہ ایک 'عظیم تاریخی علامت' ہے۔
واضح رہے کہ ملا عمر نے افغان صوبے قندھار میں اپنی تنظیم طالبان کی بنیاد رکھی تھی جس نے 1996 میں خانہ جنگی کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ بعدازاں افغانستان میں سخت قوانین کا نفاذ ہوا تھا۔
SEE ALSO: ’ملا عمر کبھی افغانستان چھوڑ کر نہیں گئے‘؛ نویں برسی پر کابل میں طالبان کی خصوصی تقریبطالبان کے دورِ اقتدار میں افغانستان جنگجوؤں کا محفوظ گڑھ بننے لگا اور نائن الیون حملوں کے بعد جب طالبان حکومت نے القاعدہ لیڈر اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے کے امریکی مطالبے سے انکار کیا تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں فضائی کارروائی شروع کی۔
افغانستان پر امریکہ کے حملے کے بعد ملا عمر قندھار سے زابل منتقل ہو گئے تھے اور روپوشی کے دوران 2013 میں ان کی موت واقع ہوئی۔ البتہ طالبان نے کئی برسوں تک ان کی موت کو خفیہ رکھا۔
گزشتہ برس افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آ چکے ہیں اور وہ ماضی کی طرح سخت قوانین نافذ کر رہے ہیں۔ تاہم طالبان کی حکومت کو اب تک عالمی سطح پر کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔