طالبان نے اسلام آباد میں افغان سفارت خانے اور دوسرے شہروں میں قائم قونصل خانوں میں اپنے سفارت کار تعینات کر دیے ہیں۔ دو طالبان عہدے داروں نے جمعرات کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس سلسلے میں اسلام آباد کے افغان سفارت خانے کو نوٹیفکیشن مل گیا ہے جس کی نقل وائس آف امریکہ نے حاصل کر لی ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان تعیناتیوں کی اجازت دے دی ہے ، جب کہ پاکستان نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
اس کے علاوہ، کابل میں پاکستان کے سفیر منصور خان نے وی اے او کو یہ تصدیق کی ہے کہ طالبان کے اہل کاروں کو ویزے جاری کر دیے گئے ہیں۔
منصور خان کا کہنا تھا کہ، "یہ ویزے انسانی ہمدردی کے کاموں کے سلسلے میں افغانستان جانے والے پاکستانیوں کے لیے قونصلر کے کام ، ویزا کی سہولیات اور پاکستان میں افغان شہریوں کی مدد کے لیے جاری کیے گئے ہیں۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ ویزوں کے اجراء کا مطلب انہیں تسلیم کرنا نہیں بلکہ سہولت فراہم کرنا ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اگست کے وسط میں طالبان کے دارالحکومت کابل پر قبضے کے بعد سے افغانستان میں انسانی بحران اور عدم استحکام سے بچنے کے لیے بین الاقوامی برادری پر زور دے رہے ہیں۔
ایک طالبان اہل کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی او اے کو بتایا کہ سردار محمد شکیب نے، جسے موسیٰ فرہاد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اسلام آباد میں افغان سفارت خانے میں فرسٹ سیکرٹری کا چارج سنبھال لیا ہے۔
ایک افغان سفارت کار نے، جو صدر اشرف غنی کی پچھلی حکومت سے اسلام آباد میں کام کر رہے ہیں، بتایا کہ شکیب نے ڈی فیکٹو "چارج ڈی افیئرز" کا عہدہ سنبھالا ہے کیونکہ اس وقت افغان سفارت خانے میں کوئی سفیر نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شکیب تمام سفارتی امور دیکھ رہے ہیں کیونکہ جولائی میں افغانستان کی سابق حکومت نے اپنا سفیر بلا لیا تھا جس کے بعد سے یہ عہدہ خالی چلا آ رہا ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ایک اہل کار نے بھی اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی او اے کو بتایا کہ ان کے خیال میں افغان سفارت خانے میں طالبان کی جانب سے تقرری ایک انتظامی معاملہ ہے، تاکہ سفارت خانے کو مناسب طریقے سے چلانے کے قابل بنایا جا سکے۔
افغانستان نے پاکستان میں اپنے سفیر نجیب اللہ علی خیل کی بیٹی کے مبینہ اغوا اور تشدد پر احتجاج کرتے ہوئے جولائی میں اسلام آباد سے اپنے سفیر اور سینئر سفارت کاروں کو واپس بلا لیا تھا۔ اسلام آباد کے دورے پر آنے والی ان کی بیٹی سلسلہ علی خیل نے بتایا تھا کہ انہیں اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ اسلام آباد میں خریداری کر رہی تھیں اور نامعلوم افراد نے انہیں کئی گھنٹوں تک قید میں رکھا اور انہیں مارا پیٹا۔ پاکستان نے اس واقعہ کی تحقیقات کرنے کے بعد ان کے مبینہ اغوا کیے جانے کی تردید کر دی تھی۔
طالبان نے پاکستان کے تین صوبائی دارالحکومتوں کراچی، پشاور اور کوئٹہ کے افغان قونصل خانوں میں بھی اپنے سفارت کار تعینات کر دیے ہیں۔
پشاور میں تعینات کیے جانے والے حافظ محب اللہ نے بدھ کو اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ طالبان کے ایک اہل کار نے بتایا کہ وہ قونصلر امور سرانجام دیں گے۔
ملا غلام رسول کو کوئٹہ، جب کہ ایک اور سینئر طالبان رہنما ملا محمد عباس کو کراچی کے قونصل خانے میں تعینات کیا گیا ہے۔ عباس طالبان کے پچھلے دور حکومت میں نائب وزیر صحت کے طور پر کام کر چکے ہیں۔
افغان سفارت خانے کے ایک سفارت کار نے وی او اے کو بتایا کہ سفارت خانے کو اگست کے آخر میں وزیر خارجہ امیر خان متقی کی جانب سے سفارت کاروں کی تقرری کے سلسلے میں دو خطوط موصول ہوئے تھے۔
افغان سفارت خانے کے ایک ذریعے نے بتایا کہ طالبان اہل کاروں کو پاکستان کے ویزے سفارتی پاسپورٹ پر جاری کیے گئے ہیں۔
جب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے تقرریوں کی تردید نہیں کی، لیکن کہا کہ وہ اس معاملے پر معلومات اکٹھی کر رہے ہیں۔
پاکستان نے 1996 سے 2001 میں افغانستان پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا، لیکن امریکہ پر نائن الیون کے حملوں کے بعد اپنا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔ اس دور میں ملا ضعیف پاکستان میں افغان سفیر تھے۔ انہوں نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ انہیں 2002 کے اوائل میں پشاور میں امریکی افواج کے حوالے کیا گیا تھا۔
شکیب کون ہیں؟
شکیب کو جاننے والے طالبان ارکان کا کہنا ہے کہ وہ صوبہ زابل سے تعلق رکھنے والے پشتون ہیں اور جنوبی قندھار میں محکمہ اطلاعات و ثقافت میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ طالبان کے ایک میگزین سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ وہ ماضی میں قاری یوسف احمدی کے نام سے طالبان کے ترجمان کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ وہ پاکستان میں گرفتار بھی ہوئے تھے اور بعد میں کئی سال تک پشاور میں مقیم رہے۔
مالی بحران
پاکستان میں افغان سفارت خانے کے اہل کاروں نے وی او اے کو بتایا ہے کہ طالبان کے قبضے کے بعد سے مشن کو مالی بحران کا سامنا ہے اور تین ماہ سے سفارت خانے کی عمارت کا کرایہ بھی ادا نہیں کیا جا سکا ہے۔
ایک اور سفارت کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عملے کو گزشتہ تین ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔