افغانستان کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ ہفتے کو طالبان باغیوں نےپاکستان کی سرحد کے ساتھ والے مشرقی صوبے میں درجنوں مسافروں کو اغوا کر لیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ واقعہ جنوب مشرقی صوبہٴ پکتیا کے سید کرم ضلعے میں پیش آیا۔
صوبائی حکام اور مکینوں کا کہنا ہے کہ سینکڑوں طالبان جنگجوؤں نے کئی گھنٹوں تک 30 کے قریب گاڑیوں کو روک کر تلاشی لی، جس کے بعد درجنوں مسافروں کو پکڑ لیا اور ایک نامعلوم مقام کی سمت لے گئے۔
طالبان کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا ہے کہ یرغمال بنائے گئے تقریباً 30 افراد میں ’آٹھ اہم افغان اہل کار‘ بھی شامل ہیں، جب کہ اُنھوں نے اس دعوے کو مسترد کیا کہ اِن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔
یرغمالیوں کی تلاش کے لیے، افغان سکیورٹی فورسز نے علاقے میں کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔
جمعرات کو طالبان سے تعلق رکھنے والے ایک مسلح شدت پسند نے پکتیا کے وکیل استغاثہ، نجیب اللہ سلطانزئی کو اُس وقت قتل کیا، جب وہ دارالحکومت کابل کے دورے پر تھے۔ اس اسلام پرست باغی گروپ نے اس کی ذمہ داری قبل کر لی ہے۔
گذشتہ دو ہفتوں کے دوران، طالبان نے افغان اٹارنی جنرل کے دفتر کے اہل کاروں کے خلاف بارہا ہلاکت خیز حملے جاری رکھے ہیں۔
افغانستان میں ہونے والی اِن باغیانہ سرگرمیوں میں کافی اضافہ آیا ہے۔ بدھ کی رات افغان دارالحکومت میں طالبان کی جانب سے انتہائی سکیورٹی والے علاقے میں واقع گیسٹ ہاؤس پر کیے گئے حملے میں 14 افراد ہلاک ہوئے، جِن میں زیادہ تعداد غیرملکیوں کی تھی۔
ہلاک ہونے والوں میں کم از کم سات امدادی کارکن شامل تھے، جو اِس جنگ زدہ ملک میں غربت اور دیگر چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں مدد فراہم کر رہے تھے۔ اِن میں ایک امریکی، ایک برطانیہ کے شہری، چار بھارتی شہری، جب کہ دو پاکستانی تھے۔
فروری میں صوبہ زابل میں حکومت 31 میں سے 19 مغویوں کی بازیابی میں کامیاب ہوئی تھی، جن میں زیادہ تعداد شیعہ افغانیوں کی تھی، جنھیں مسلح جنگجوؤں نے یرغمال بنا رکھا تھا۔
تاہم، صدر اشرف غنی نے اس تاثر کو غلط قرار دیا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے انتہائی خطرناک مجرموں کا تبادلہ کیا گیا۔