افغان طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے امریکہ پر ممکنہ افغان امن معاہدے سے متعلق غیر یقینی کی صورت حال پھیلانے کا الزام عائد کیا ہے۔
جمعرات کو عیدالاضحیٰ کے لیے جاری اپنے ایک پیغام میں افغان طالبان کے امیر نے کہا ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ ہونے والے ممکنہ امن معاہدے پر غیر یقینی کی صورتِ حال اور خدشات پیدا کر رہا ہے۔
ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے کہا کہ طالبان امریکہ کے ساتھ انتہائی سنجیدگی اور خلوص سے 18 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات میں مصروف ہیں اور اس دوران امریکہ کی جانب سے افغانستان میں بے رحمانہ حملوں میں اضافہ ہوا ہے جس میں شہری علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
افغان طالبان کے امیر نے کہا کہ ہمیں امریکہ کے ارادوں پر خدشات ہیں اور امریکی فوج اور سیاسی رہنماؤں کے بدلتے بیانات ممکنہ امن معاہدے کے لیے غیر یقینی کی صورتِ حال پیدا کر رہے ہیں۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ فریقین کے درمیان باہمی اعتماد کا ہونا کسی بھی کامیاب مذاکرات کی بنیاد ہوتی ہے۔ لہٰذا، یہ ضروری ہے کہ ایسے منفی اقدامات بند کر دیے جائیں۔
ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے اپنے بیان میں طالبان کو ہدایات جاری کیں کہ شہریوں کی حفاظت، ان کی مدد اور انہیں سہولیات کی فراہمی جیسے اقدامات کیے جائیں۔
واضح رہے کہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے یہ الزام کابل پولیس ہیڈ کوارٹر پر طالبان کے حملے کے صرف ایک روز بعد عائد کیا ہے۔ کابل میں پولیس اسٹیشن پر گزشتہ روز طالبان کے حملے میں 14 افراد ہلاک اور 145 زخمی ہوئے تھے۔
دوسری جانب افغانستان کے صدرارتی ترجمان صادق صدیقی نے طالبان امیر کے بیان کو گمراہ کن قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ طالبان کا یہ بیان لوگوں کے لیے خوف اور دہشت کا پیغام ہے اور افغانستان کے عوام اس بیان سے بے وقوف نہیں بنیں گے۔ افغانستان کے لوگ چاہتے ہیں کہ طالبان یہ جنگ ختم کریں۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان امور زلمے خلیل زاد نے بھی طالبان کے حالیہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان کی توجہ پُرتشدد واقعات کے خاتمے اور مذاکرات پر ہونی چاہیے۔
یاد رہے کہ افغانستان میں جاری طویل جنگ کے خاتمے اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے لیے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا آٹھواں دور قطر میں جاری ہے اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ رواں ماہ 13 اگست تک طالبان اور امریکہ کسی معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔