|
افغان حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ،جو شاز و نادر ہی عوام کے سامنے آتے ہیں، بدھ کے روز غیر معمولی طور پر عوام کے سامنے آئے اور ایک تقریر میں اپنی حکمرانی پر تنقید کرنے پر بین الاقوامی برادری کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ انہوں نے یہ خطاب بدھ کو عید الفطر کے موقع پر جنوبی صوبے قندھار کی سب سے بڑی مسجد میں کیا جہاں ان کے بقول ہزاروں ہم وطنوں نے شرکت کی۔
اے ایف پی کے ایک ذریعے نے ، جس نے اجتماع میں شرکت کی تھی بتایا کہ اخوندزادہ مسجد کے صحن میں جمع بڑے ہجوم کو نظرتو نہیں آ رہے تھے، لیکن لاؤڈ اسپیکر پر ان کے خطبے کو سنا جا سکتا تھا۔
SEE ALSO: پاکستان،افغانستان: عید سے قبل مساجد اور بازاروں میں بھاری سیکیورٹی تعیناتاخوند زادہ کا آڈیو ایڈریس
طالبان حکومت کے ترجمان کی طرف سے جاری کیے گئے 35 منٹ کے ایک آڈیو ایڈریس میں، اخوندزادہ نے کہا کہ امریکی قیادت کے حملے میں ملوث ملک ابھی تک افغانستان پر “پروپیگنڈے” اور “شر انگیز ہتھکنڈوں” سے حملہ کر رہے ہیں۔
آڈیو خطاب کے مطابق انہوں نے کہا کہ ،”آج، وہ آپ کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔“وہ رہنماؤں کو نا اہل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ حکومت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ خود کو ان کافروں کے ہاتھوں گمراہ نہ ہونے دیں۔ ان سے ہوشیار رہیں۔ وہ آپ کو دھوکہ دیں گے۔ وہ آپ کو ناکام کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے عہد کیا ،”میں اسلامی قانون سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔”
SEE ALSO: طالبان باہمی اختلافات سے دور رہیں، پہلے اسی وجہ سے شریعت نافذ نہیں ہوئی: ملا ہبت اللہوزارت مذہبی امور نے ہدایات جاری کی تھیں کہ بدھ کی نماز کے دوران افغان امام اخوندزادہ کی جانب سے رمضان کے شروع میں شائع کردہ پیغام پڑھ کر سنائیں۔
اس پیغام میں انہوں نےکہا کہ ،”ہم تمام قوموں کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی تعلقات چاہتے ہیں ” انہوں نے مزید کہا ، “ہم افغانستان کی خودمختاری، سالمیت اور وقار کے احترام کی توقع اور مطالبہ کرتے ہی ۔”
اے ایف پی کے ذریعے نے بتایا کہ سخت حفاظتی انتظامات نے مرکزی عبادت گاہ تک رسائی کو محدود کر دیا تھا، اگرچہ طالبان کے کئی اعلیٰ عہدے داروں نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا کہ انہوں نے بدھ کو طالبان اعلیٰ رہنما سے ملاقات کی تھی۔
کابل میں عید الفطر پر حفاظتی انتظامات
دارالحکومت کابل میں، طالبان کی حکومت کے تحت تیسری عید الفطر کی تقریبات میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
فجر کی نماز شروع ہوتے ہی مساجد کے ارد گرد اضافی پڑتالی چوکیاں قائم کر دی گئیں، پولیس اور طالبان کی سرکاری سکیورٹی فورسز کے دستے تعینات کیے گئے اور موبائل فون کے سگنلز منقطع کر دیے گئے۔
سیکیورٹی فورسز نے اے ایف پی کے نامہ نگاروں کو کابل میں متعدد مقامات پر عید کی تقریبات کی ریکارڈنگ سے روک دیا۔
چونکہ مساجد گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی تھیں اس لیے ہزاروں نمازیوں نے سڑکوں پر نماز ادا کی۔
اخوند زادہ عوام سے دور رہتے ہیں
ہبت اللہ اخوندزادہ 2016 میں افغانستان میں طالبان کی قیادت ملنے اور 2021 میں امریکی افواج کے انخلاء کے ساتھ تحریک کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے بعد سے صرف چند بار ہی عوام کے سامنے آئے ہیں۔
اخوندزادہ کی صرف ایک تصویر عوامی طور پر دستیاب ہے۔ پریس کو عام طور پر ان کی عوامی مصروفیات میں جانے سے روک دیا گیا ہے اور افغان شرکاء کو اپنے فون پر تصاویر لینے یا ریکارڈنگ سے منع کیا گیا ہے۔
اخوندزادہ اس سے قبل 2022 میں عید الفطر کے موقع پر افغان عوام کو فتح، آزادی اور کامیابی پر مبارکبادی کی تھی جب وہ تقریر کے ساتھ قندھار میں عوامی طور پر سامنے آئے تھے ۔تہم اس دوران ان کی پشت ہجوم کی طرف تھی تاکہ ان کی شناخت پوشیدہ رہے۔
ہبت اللہ اخوند زادہ کا انداز حکومت
طالبان کے با ریش "امیر" نے پچھلے تین برسوں میں فرمان (حکم ناموں) کے ذریعے ذریعے اسلام کے ایک سخت تصور کو نافذ کرتے ہوئے حکومت کی ہے، جس کی وجہ سے افغانستان عالمی سطح پر بڑی حد تک الگ تھلگ ہو گیا ہے۔
SEE ALSO: طالبان خواتین پر دل شکن پابندیاں ختم کریں، افغانستان میں اقوام متحدہ کا امدادی مشناگرچہ طالبان کی حکومت بظاہر دارالحکومت کابل میں قائم ہے، تاہم اخوندزادہ قندھار میں خفیہ مقامات سے حکومت چلاتے ہیں جسے اسلام پسند تحریک کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
اگست 2021 میں غیر ملکی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کے بعد سے، ان کی طالبان انتظامیہ نے خواتین اور لڑکیوں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں جن کی اقوام متحدہ نے "صنفی امتیاز" کے طور پر مذمت کی ہے۔
طالبان کی حکومت کے ساتھ عہدہ بر آ ہونے کے حوالے سے پیدا ہونے والی بے اطمینانی نے غیر ملکی امداد کو روکا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں ملک میں انسانی بحران، جو پہلے ہی دنیا کا ایک بد ترین بحران تھا، ڈرامائی طور پر بدتر شکل اختیار کر رہا ہے۔
کابل کے طالبان حکمران زور دیتے ہیں کہ وہ دوسرے ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی قومی پالیسیوں پر انسانی حقوق کے خدشات کا دباؤ برداشت نہیں کریں گے۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔