افغان طالبان نے پاکستان میں موجود امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد سے ملاقات کی ہے۔
افغان طالبان کا 12 رکنی وفد ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں اسلا آباد میں موجود ہے، جس نے جمعرات کو پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کی تھیں۔
وفود کی سطح پر دفتر خارجہ میں ہونے والی ملاقات میں پاکستان فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق، افغان طالبان کے وفد نے جمعرات کو ہی امریکی نمائںدۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت سے بھی ملاقات کی ہے۔
زلمے خلیل زاد اور طالبان رہنماؤں کے درمیان ملاقات ایسے وقت ہوئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ ایک ٹوئٹ کے ذریعے امن مذاکرات کی منسوخی کا اعلان کیا تھا۔
اس سے قبل افغانستان میں طویل جنگ کے خاتمے کے لیے زلمے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان تقریباً ایک سال تک مذاکراتی عمل جاری رہا۔ اور گزشتہ ماہ ہی فریقین نے کہا تھا کہ وہ معاہدے کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں۔
'رائٹرز' کے مطابق، افغان طالبان اور زلمے خلیل زاد کی ملاقات ایک گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہی جس میں باضابطہ مذاکرات پر بات نہیں ہوئی۔ البتہ فریقین نے اعتماد کی بحالی پر زور دیا ہے۔
پاکستان کے سینئر حکام کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر 'رائٹرز' کو بتانا ہے کہ طالبان اور زلمے خلیل زاد کی ملاقات کا اہتمام کرانے کے لیے پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
طالبان وفد اور امریکہ کے نمائندۂ خصوصی کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بارے میں امریکہ، پاکستان یا طالبان نے تاحال اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔
قبل ازیں پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل 'ہم نیوز' سے جمعرات کی شب گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ "طالبان وفد کی زلمے خلیل زاد سے بھی ملاقات ضرور ہوگی۔" تاہم، انہوں نے اس کی مزید تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے جمعرات کو طالبان کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے دوران کہا تھا کہ پاکستان افغانستان کے مسئلے کا حل افغان عوام کی خواہشات اور افغان قوم کے ذریعے چاہتا ہے۔
اُن کے بقول، پاکستان افغانستان کے مسائل کا حل مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے تلاش کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ افغانستان میں مفاہمت اور مذاکرات کے لیے پاکستان کردار ادا کرتا رہے گا۔