امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان مفاہمت، زلمے خلیل زاد نے قطر میں موجود طالبان عہدے داروں سے تفصیلی گفت و شنید کا دوسرا دور کیا ہے، جس کا مقصد 17 برس پرانی لڑائی کے سیاسی مذاکرات کے ذریعے تصفیے کو آگے بڑھانا ہے۔
اسلامی سرکشوں کے ساتھ خلیل زاد کی سہ روزہ ملاقاتیں جمعے کے روز مکمل ہوئیں، جب کہ دونوں فریق ''مکالمے کے عمل کے بارے میں پُرامید دکھائی دیے''۔ یہ بات کئی طالبان ذرائع نے ہفتے کے روز بتائی ہے۔
تاہم، کسی بھی فریق نے سرکاری طور پر اِس بات کی تصدیق نہیں کی یا خلیجی ملک کے دارالحکومت، دوحہ میں اس ہفتے کے دوران ہونے والی بات چیت کی تفصیل جاری نہیں کی، جہاں افغان طالبان کا خودساختہ ''سیاسی دفتر'' قائم ہے۔
ایک ماہ سے کچھ ہی زیادہ عرصے کے دوران خلیل زاد کی یہ دوسری ملاقات تھی۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اُنھیں ستمبر میں اس عہدے پر تعینات کیا تھا، جس کا مقصد افغان حکومت اور باغی گروپ کو مذاکرات کی میز پر لانا ہے۔
سرکش ذرائع نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ امریکی ٹیم کے ساتھ مذاکرات میں گوانتانامو بے کے امریکی حراستی مرکز کے سابق قیدی، ملا فضل اور ملا خیرخواہ طالبان وفد میں شامل تھے۔
طالبان نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ مکالمے کے عمل کا مقصد افغانستان سے تمام امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کا نظام الاوقات طے کرنا ہے، تاکہ افغانوں کی آپس کی بات چیت کی راہ ہموار ہو۔
طالبان کے قطر میں قائم دفتر کی جانب سے بات کرتے ہوئے، سہیل شاہین نے گذشتہ ہفتے ماسکو میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ''جب ہم اُن کی تمام افواج کے انخلا کے بارے میں حل پر پہنچ جائیں گے، تو ہم (گفت و شنید کے) دوسرے دور میں داخل ہوں گے، جس میں افغانوں کے درمیان مکالمہ ہوگا، آیا امن کو کس طرح لایا جائے اور افغانستان میں حکومت تشکیل دی جائے''۔
شاہین روسی دارالحکومت میں موجود تھے جہاں وہ طالبان کے پانچ رکنی وفد کا حصہ تھے، جس نے روس کی میزبانی میں منعقدہ افغان امن کی کوششوں کی بین الاقوامی کانفرنس میں پہلی بار شرکت کی۔
باغی گروپ کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ملاقاتوں میں، وہ اپنے قیدیوں کی رہائی اور چوٹی کے طالبان رہنمائوں کے بین الاقوامی سفر پر لگی ہوئی پابندیوں کو ہٹائے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔
گذشتہ ماہ افغان اہلکاروں اور طالبان نمائندوں کے ساتھ ملاقانوں کے بعد، خلیل زاد نے دونوں فریق پر زور دیا تھا کہ امن مذاکرات کے لیے دونوں اپنے اپنے بااختیار وفود تشکیل دیں۔