طالبان نے اپنے سربراہ کی ہلاکت کے ردعمل میں پاکستان میں تشدد کی کارروائیوں کو تیز کرنے کی دھمکی دی ہے۔ حکیم اللہ کی ہلاکت کی خبر آتے ہی پورے ملک خصوصاً خیبر پختونخواہ میں سکیورٹی مزید سخت کردی گئی۔
پشاور، اسلام آباد —
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد اس تحریک کے نئے سربراہ کی تقرری کے لیے اطلاعات کے مطابق دو مختلف اجلاس ہوئے اور جنگجو کمانڈروں کی مشاورت کا عمل جاری ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق شمالی وزیرستان میں ہونے والے اجلاس میں وزیرستان کے علاوہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع سے شدت سپند کمانڈروں نےشرکت کی جس میں خان سید سجنا کے نام پر اتفاق ہوا ہے۔
لیکن اطلاعات کے مطابق افغان سرحدی صوبے نورستان میں روپوش سوات اور باجوڑ سے تعلق رکھنے والے پاکستانی طالبان نے اس سے اختلاف کیا ہے۔
اُدھر خبر رساں ایجنسی رائیٹرز نے نامعلوم طالبان جنگجو کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں مبینہ امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کا چہرہ ’’مسخ شدہ مگر قابلِ شناخت‘‘ تھا۔
حکیم اللہ محسود اور اس کے کم از کم تین ساتھیوں کو شمالی وزیرستان کے مرکزی قصبے میران شاہ کے مضافاتی علاقے میں جمعہ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق طالبان کمانڈر اور دیگر ہلاک شدگان کی تدفین طلوع آفتاب سے قبل کر دی گئی۔
حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی تصدیق خود ان کی تنظیم کے اراکین نے کی ہے، جب کہ امریکہ یا پاکستان کی حکومتوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
مبصرین حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کو طالبان اور حکومتِ پاکستان کے درمیان مجوزہ امن مذاکرات کے لیے بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار محمود شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ مذاکرات کا مستقبل اب طالبان کی نئی قیادت پر منحصر ہوگا۔
’’یہ تو اب جو نیا لیڈر آئے گا اس پر ہے کہ یہ عمل آگے بڑھانا ہے یا مذاکرات نہیں کرنے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس میں تعطل تو ضرور آئے گا۔‘‘
مقامی میڈیا نے ذرائع کے حوالے سے دی گئی خبروں میں کہا ہے کہ حکومت کے نمائندہ وفد نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا باقاعدہ آغاز ہفتہ کو کرنا تھا اور جس وقت حکیم اللہ محسود کو نشانہ بنایا گیا تو طالبان کے مقامی کمانڈرز بھی اس سلسلے میں غور و خوض کے لیے جمع ہو رہے تھے۔
طالبان نے اپنے سربراہ کی ہلاکت کے ردعمل میں پاکستان میں تشدد کی کارروائیوں کو تیز کرنے کی دھمکی دی ہے۔ حکیم اللہ کی ہلاکت کی خبر آتے ہی پورے ملک خصوصاً خیبر پختونخواہ میں سکیورٹی مزید سخت کردی گئی۔
مقامی ذرائع کے مطابق شمالی وزیرستان میں ہونے والے اجلاس میں وزیرستان کے علاوہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع سے شدت سپند کمانڈروں نےشرکت کی جس میں خان سید سجنا کے نام پر اتفاق ہوا ہے۔
لیکن اطلاعات کے مطابق افغان سرحدی صوبے نورستان میں روپوش سوات اور باجوڑ سے تعلق رکھنے والے پاکستانی طالبان نے اس سے اختلاف کیا ہے۔
اُدھر خبر رساں ایجنسی رائیٹرز نے نامعلوم طالبان جنگجو کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں مبینہ امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کا چہرہ ’’مسخ شدہ مگر قابلِ شناخت‘‘ تھا۔
حکیم اللہ محسود اور اس کے کم از کم تین ساتھیوں کو شمالی وزیرستان کے مرکزی قصبے میران شاہ کے مضافاتی علاقے میں جمعہ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق طالبان کمانڈر اور دیگر ہلاک شدگان کی تدفین طلوع آفتاب سے قبل کر دی گئی۔
حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی تصدیق خود ان کی تنظیم کے اراکین نے کی ہے، جب کہ امریکہ یا پاکستان کی حکومتوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
مبصرین حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کو طالبان اور حکومتِ پاکستان کے درمیان مجوزہ امن مذاکرات کے لیے بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار محمود شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ مذاکرات کا مستقبل اب طالبان کی نئی قیادت پر منحصر ہوگا۔
’’یہ تو اب جو نیا لیڈر آئے گا اس پر ہے کہ یہ عمل آگے بڑھانا ہے یا مذاکرات نہیں کرنے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس میں تعطل تو ضرور آئے گا۔‘‘
مقامی میڈیا نے ذرائع کے حوالے سے دی گئی خبروں میں کہا ہے کہ حکومت کے نمائندہ وفد نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا باقاعدہ آغاز ہفتہ کو کرنا تھا اور جس وقت حکیم اللہ محسود کو نشانہ بنایا گیا تو طالبان کے مقامی کمانڈرز بھی اس سلسلے میں غور و خوض کے لیے جمع ہو رہے تھے۔
طالبان نے اپنے سربراہ کی ہلاکت کے ردعمل میں پاکستان میں تشدد کی کارروائیوں کو تیز کرنے کی دھمکی دی ہے۔ حکیم اللہ کی ہلاکت کی خبر آتے ہی پورے ملک خصوصاً خیبر پختونخواہ میں سکیورٹی مزید سخت کردی گئی۔