افغانستان کی طالبان حکومت اس بات پر مصر ہے کہ ’میس اےنک‘ نامی کان سے تانبا نکال کر اضافی آمدنی حاصل کرے مگر مشکل یہ ہے کہ یہ کان ایک قدیم تاریخی مقام پر واقع ہے۔ اور بعض ماہرین آثار قدیمہ نہیں چاہتے کہ اس علاقے میں جہاں کبھی ایک قدیم بودھ شہر واقع تھا، کھدائی کی جائے اورانہیں اس پر تشویش ہے۔
یہ علاقہ کابل کے جنوب مشرق سے چالیس کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر لوگر صوبے میں ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں کی تانبے کی کان دنیا کی سب سے بڑی تانبے کی کانوں میں سے ایک ہے، جہاں ابھی کان کنی نہیں ہوئی ہے۔ اور جہاں کم از کم پچاس ارب ڈالر مالیت کا تانبا موجودہے۔
اے نک کان شاہراہ ریشم پر اسی نام کے قدیم بودھ شہر کے آثارپر واقع ہے۔ اور وہاں سے دریافت ہونے والےڈھانچوں اور نوادرات کو دیکھ کر ماہرین آثار قدیمہ باور کرتے ہیں کہ دو ہزار برس قبل وہاں کے مکین تانبا نکالتے تھے۔مبصرین کا کہنا ہےکہ طالبان ، بین الاقوامی پابندیوں کے معاشی اثرات کو کم کرنے کے لئے، وہاں سےتانبا نکالنا چاہتے ہیں۔
افغانستان کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی انٹرنیشنل ریلیشنز کمیٹی کے سابق سربراہ اور ماہرمعیشت Azarkhsh Hafizi نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان کو پیسے کی ضرورت ہے۔
حفیظی کا کہنا تھا افغانستان کا انیس سو بیس کے عشرے میں اسوقت سے بین الاقوامی امداد پر انحصار ہے جب ملک میں ترقی اور اسے جدید بنانے کا کام شروع ہوا۔ لیکن اب جبکہ بین الاقوامی فنڈنگ بند ہو گئی ہے، طالبان نئےمالی وسائل تلاش کر رہے ہیں۔
چین کی میٹلرجیکل کارپوریشن کے ایک عہدیدار کے دورے کے دوران طالبان کے پیٹرولیم اور کان کنی کے وزیر شہاب الدین دلاور نے اس منصوبے کو انتہائی اہم قرار دیا اور کہا کہ کان سے تانبا نکالنا طالبان کےلیے اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔
SEE ALSO: افغانستان پر پابندیاں: کیا اربوں ڈالر کے کان کنی کے معاہدوں پر عمل درآمد ممکن ہے؟وہ اس منصوبے پر جس قدر جلد ممکن ہو، کام شروع کرنے کے بارے میں پر عزم ہیں۔
طالبان کا کہنا ہے انہوں نے وہاں سے ملنے والے نوادرات کو،جن کی موجودگی منصوبہ شروع کرنے کی راہ میں حائل ہے، دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے ، ایک کمیٹی بنادی ہے۔ تاہم اس تاریخی سائٹ کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے تشویش بدستور موجود ہے۔
(وائس آف امریکہ کے روشن نور زئی کی رپورٹ)