طالبان کی وزارت خارجہ نے صدر جو بائیڈن کے اس بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے ناقابل قبول قرار دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ افغانستان اتحاد سے قاصر ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ صدر بائیڈن کے خطاب میں افغانستان کو"سلطنتوں کا قبرستان" قرار دینا خود افغان اتحاد کا اعتراف ہے۔
انہوں نے کہا کہ منقسم نہیں بلکہ متحد قومیں ہی حملہ آوروں اور عظیم سلطنتوں کے زوال کا سبب بنتی ہیں۔ قبضے کے خاتمے کے بعدہم نے دیکھا کہ کس طرح طالبان حکومت نے محدود وسائل کے ساتھ اور مختصر مدت میں مجموعی سلامتی کو یقینی بنایا ۔ ایک مرکزی حکومت قائم کی اور افغان قوم کو متحد کیا۔
بلخی کا کہنا تھا کہ اختلاف ایک بیرونی رجحان ہے جسے غیر ملکی حملہ آوروں نے اپنی بقا کے لیے فروغ دیا۔ تاہم افغانوں نے اپنے مشترکہ اسلامی عقائد، وطن اور اہم تاریخ سے انہیں شکست دی اور اب وہ برابری کی سطح پر ایک قوم بننے کی طرف پیش رفت کر رہے ہیں ۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپنی مدت صدارت کا ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نامہ نگاروں سے اپنی گفتگو میں افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلا کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے افغانستان کو "سلطنتوں کا قبرستان" قرار دیا تھا۔
صدر بائیڈن نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ واشنگٹن 20 سال تک افغانستان میں ہر ہفتے ایک ارب ڈالر خرچ کرتا رہا لیکن کسی کا بھی نہیں خیال کہ اس کے باوجود امریکہ افغانستان کو متحد کر سکے گا۔
اقوام متحدہ کے لیے طالبان کے نامزد مستقل مندوب سہیل شاہین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغانستان کے 'سلطنتوں کا قبرستان' ہونے کے بائیڈن کے نظریے سے اتفاق کرتے ہیں لیکن امریکی صدر کی افغانستان کے متعلق باقی باتیں زمینی حقائق سے تعلق نہیں رکھتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ "افغانستان ہمیشہ سے متحد رہا ہے اور اب بھی متحد ہے۔ جب بھی قومی مفاد اور اور قومی اتحاد کی بات ہوتی ہے تو افغانستان کے ہر کونے کے لوگ یک زبان ہو جاتے ہیں۔
صدر بائیڈن نے بدھ کے روز یہ بھی کہا تھا کہ" طالبان کی نااہلی سے جو کچھ بھی ہوا ہے اس پر میں اچھا محسوس نہیں کرتا"۔
اس کے ردعمل میں سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کا نقصان ہماری حکومت کو نہیں بلکہ عام افغان شہری کو ہو رہا ہے۔اگر وہ آج ہمارے نو ارب 60 کروڑ ڈالر سے زیادہ کے منجمد فنڈز جاری کر دیتے ہیں، ہمارے بینکاری نظام پر سے پابندیاں اٹھا لیتے ہیں اور ہمارے تاجروں کو برآمد اور درآمد کے لیے معمول کے مالیاتی چینلز استعمال کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں اور سرمائے کی اسی طرح آمد و رفت شروع ہو جاتی ہے جیسے امریکہ میں ہے تو اس سے ہماری معیشت بحال ہونا شروع ہو جائے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر پابندیاں ختم کرنے کے بعد بھی بحران جاری رہتا ہے تو پھر یہ یقیناً ہماری نااہلی اور حکمرانی کی صلاحیت کا فقدان ہو گا۔