افغانستان کے طالبان نے امریکہ کی طرف سے اس تازہ ترین تنقید کے خلاف اپنی حکومت کا دفاع کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اٖفغانستان میں ایک نسلی گروپ کے غلبے والی صرف مردوں کی حکومت ہے۔
اسلام آباد سے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ اس تنقید کو مسترد کرتے ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ کے تنقیدی ریمارکس پر ردعمل دے رہے تھے۔
ترجمان طالبان نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت کی جانب سے'' تمام ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے معاشرے کے ضابطہ کار اور اقدار پر غور کیا گیا ہے۔‘‘
تھامس ویسٹ نے ہفتے کے روز جرمنی کے شہر میونخ میں بین الاقوامی سکیورٹی کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ خواتین کے تعلیم اور روزگار کے حق پر طالبان کے ساتھ ان کی گفتگو تعمیری رہی۔ تاہم، تھامس ویسٹ کے بقول، طالبان ایک نمائندہ حکومت کے حوالے سے کافی قدامت پسند ہیں۔
SEE ALSO: اوسلو: افغان طالبان اور مغربی ممالک کے مابین تین روزہ مذاکرات کا آغازان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی موجودہ حکومت میں ایک خاتون بھی شامل نہیں ہے اور غالب اکثریت ایک نسلی گروپ کی ہے۔ ان کے بقول، قیادت میں اعلیٰ سطح پر ایسے لوگوں کی کمی ہے جو زیادہ پڑھے لکھے ہوں۔
طالبان میں اکثریت نسلی اعتبار سے پشتون ہیں اور ان کی عبوری حکومت میں اکثریت کا تعلق بھی اسی گروپ سے ہے جس میں زیادہ تر طالبان کی سینئر قیادت شامل ہے۔ بشمول ایسے افراد کے جن پر ایک طویل عرصے سے امریکہ اور اقوام متحدہ نے دہشتگردی سے متعلق پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔