طالبان کے ساتھ صلح کے بعد کیا ہو گا؟ افغان خواتین کے خدشات و تحفظات

  • شہناز نفيس

فائل فوٹو

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل ‘‘ کا کہنا ہے کہ گزشتہ 50 سالوں کے دوران افغانستان میں برسر اقتدار مختلف گروپوں نے سیاسی مقاصد کیلئے خواتین کے حقوق کی شدید طور پر پامالی کی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جاری خانہ جنگی اور عسکریت پسندی کے باعث افغانستان میں سب سے زیادہ نقصان بھی خواتین کو پہنچا ہے۔

تاہم افغانستان میں حالیہ برسوں میں جو واضح تبدیلیاں آئیں ہیں اُن میں سے ایک افغان خواتین کو مختلف شعبوں میں ملنے والے مواقع ہیں۔ آج لاکھوں کی تعداد میں افغان لڑکیاں سکول جا رہی ہیں۔ اُن پر برقعہ پہنے کی پابندی نہیں ہے اور وہ مرد کے بغیر گھر سے باہر نکل سکتی ہیں۔ اسکے علاوہ وہ آج کی افغان خواتین ڈاکٹر، استاد، صحافی، بینکار اور وکیل کے طور پر خدمات سرانجام دے رہی ہیں بلکہ پارلیمنٹ میں موجود ہیں اور افغانستان کے نئے آئین میں خواتین کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔

دوسری جانب آج سے سترہ برس قبل طالبان کے سابقہ دور اقتدار میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی تھی۔ کسی محرم کے بغیر انکا گھر سے نکلنا قابل سزا جرم تھا۔

یوں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی صورت میں بہت سی خواتین میں اپنے حقوق کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں۔

کابل میں ایک صحافی خاتون کاملہ اکبری کہتی ہیں کہ کابل شہر میں خاتون کو اکیلے دیکھ کر بید سے پیٹ کر گھر واپس بھیجنے کا منظر اب بھی انکی آنکھوں کے سامنے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات میں پیش رفت کی خبروں سے نہ صرف انکے بلکہ بیشتر خواتین کے ذہنوں میں کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ طالبان کے ساتھ بات چیت میں افغان خواتین کی نمائندگی کے نہ ہونے پر انہیں تشویش ہے۔

ایک افغان ڈاکٹر، ثریا اکمل کہتی ہیں کہ طالبان کے دور حکومت میں مسجدوں میں یہ اعلان کہ ’ عورت کی جگہ گھر یا قبر، اب بھی انکے کانوں میں گونجتا ہے۔ انکی نظر میں امریکہ اور طالبان کے مابین بات چیت میں خواتین کے حقوق کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

سابق افغان سینیٹر رانا ترین نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کو بتایا کہ آج افغان پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی 27 فیصد ہے جو برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک سے زیادہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیشتر افغان خواتین طالبان کے دوبارہ حکومت کا حصہ بننے سے خوفزدہ ہیں۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ اگر یہ خواتین آگے بڑھیں اور آواز اٹھائیں کہ طالبان کے ساتھ معاہدے کی صورت میں اُن کے حقوق کی پاسداری کو یقینی بنایا جائے تو انکی آواز ضرور سنی جائے گی۔

ایک استانی ثناء وفا کہتی ہیں کہ افغانستان کی کوئی بھی خاتون طالبان کے دور حکومت میں واپس جانا نہیں چاہے گی کیونکہ وہ طالبان کے نظریے کو گزشتہ سترہ برس کی پیش رفت کے لئے خطرہ خیال کرتیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ افغان خواتین نے اپنی محنت سے ان برسوں میں ہر شعبے میں خود کو منوایا ہے اور انکی خواہش ہے کہ وہ آئندہ بھی مردوں کے شانہ بشانہ افغانستان کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے۔

افغان امور کے ماہر میر واعظ افغان کو اس بارے میں عام افغانوں جیسے خدشات نہیں ہیں۔ ان کا ہے کہ سترہ برسوں کی جنگ اور افغان عوام کے رویے کے باعث طالبان کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ انہیں یہ اندازہ ہو چکا ہے کہ 2001 سے پہلے کا طرزِ حکومت نہیں چل سکے گا۔ انہیں امید ہے کہ وہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔

تاہم افغان طالبان کے ترجمان نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک انٹر ویو میں بتایا ہے کہ افغانستان میں اسلامی ریاست کی تشکیل انکا بنیادی ہدف ہے۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور رواں ماہ قطر میں متوقع ہے۔ یوں سوال یہ ہے کہ طالبان کا اسلامی ریاست کا تصور سترہ برس پہلے کے تصور سے کتنا مختلف ہو گا؟

وائس آف امریکہ اردو کی سمارٹ فون ایپ ڈاون لوڈ کریں اور حاصل کریں تازہ تریں خبریں، ان پر تبصرے اور رپورٹیں اپنے موبائل فون پر۔

ڈاون لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

اینڈرایڈ فون کے لیے:

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.voanews.voaur&hl=en

آئی فون اور آئی پیڈ کے لیے:

https://itunes.apple.com/us/app/%D9%88%DB%8C-%D8%A7%D9%88-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88/id1405181675