اس کے جسم پر بظاہر کوئی خراش نہیں آئی تھی مگر ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ دھماکہ کی دھمک سے اس معصوم بچی کا ننھا سا دل پھٹ گیا۔۔۔
آخر دس سال کا بچہ ایسی بات کیسے سوچ سکتا ہے؟ اسے کیا معلوم کہ مرنے کے بعد دفنائے جانا بہت ضروری ہے۔۔۔ 2010 میں لاہور کے علاقہ باغبان پورہ کی ایک تنگ و تاریک گلی کے ایک چھوٹے سے گھر میں میں ایک ٹی وی رپورٹ بنانے کی غرض سے پہنچی تو اس بچے سے ملاقات ہوئی۔ جو اب اپنے گھر کا واحد مرد سربراہ ہے۔ بیوہ ماں اور دو چھوٹے بہن بھائی کو سنبھالنے والے اس بچے کا نام تو اب مجھے یاد نہیں مگر اس کی ایک چھوٹی سی بات آجکل مجھے بار بار یاد آتی ہے۔’جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو وہ ساری جگہ خرید لوں گا۔ پھر اس کی کھدائی کرواؤں گا اور اس کے اندر دبی اپنے بابا کی ساری ہڈیاں نکالوں گا اور انہیں قبرستان میں دفنا کر ان کی قبر بناؤں گا جس پر محمد بشیر لکھا جائے گا‘۔
یہ بات کہتے ہوئے اس کی ننھے سے چہرے پر جڑی دو آنکھوں میں تیرتے آنسو سیلاب بن کر امڈنے کو تیار تھے۔ اس بچے نے اپنا باپ 7 مئی 2009 کو ریسکیو 15 کی بلڈنگ میں ہونے والے بم دھماکے میں کھویا تھا۔ اس نے آخری بار اسے گھر سے نوکری پر جاتے ہوئے دیکھا کیونکہ بارود سے بھر گاڑی اس عمارت میں جس جگہ جا کر پھٹی، اس بچھے کا باپ اپنی جان بچانے کے لیے وہیں سیمنٹ کی بنی ایک رکاوٹ کے پیچھے چھپا تھا۔ دھماکے کے بعد یوں لگا کہ جیسے محمد بشیر کو واقعی ہی زمین نگل گئی اس کی وہاں موجودگی سی سی ٹی وی فوٹیج نے ثابت کی۔
مجھےچار سالہ میرب بھی یاد ہے۔۔۔ 2010ء میں جب ایف آئی اے، لاہور بلڈنگ دھماکے کی رپورٹنگ کر رہی تھی تو اس بچی پر ایکسپریس نیوز کے لیے ٹی وی رپورٹ بنائی تھی میں نے۔۔۔ اس کی موت دھماکے میں مرنے والے تمام افراد سے مختلف تھی۔ میرب کا گھر ایف آئی اے کی عمارت کے بالکل سامنے تھا اور دھماکے کے وقت وہ اپنی گڑیوں کے ساتھ بالکونی میں کھیل رہی تھی۔ اس کے جسم پر بظاہر کوئی خراش نہیں آئی تھی مگر ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ دھماکہ کی دھمک (جسے اس دن پورے لاہور میں سنا گیا تھا) سے اس معصوم بچی کا ننھا سا دل پھٹ گیا تھا۔
لاہور میں دہشت گردی کے واقعات کی رپورٹنگ کے دوران درجنوں واقعات ہیں جن میں جیتے جاگتے انسان آنکھ جھپکتے گوشت کے ٹکڑوں میں بکھرے ہوئے دیکھا ہے میں نے۔ میو ہسپتال کے آرتھوپیڈک وارڈ کے ہیڈ ڈاکٹر خالد جمیل نے ایک بار مجھے بتایا کہ ان دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے ان کی مصنوعی اعضاء بنانے والی ورکشاپ میں بننے والے لکڑی کے اعضاء کی طلب میں 15 سے 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔۔۔ لاہور میں ہوئے مون مارکیٹ، جی پی او چوک، داتا دربار، آرے بازار، مناواں پولیس ٹریننگ سینٹر میں ہوئے حملے اور دھماکے اور نہ جانے کتنے اور ایسے دھماکے کہ ان کی رپورٹنگ کے دوران میں نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، اگر بیان کرنا شروع کروں تو بلاگ کے اصل موضوع کے لیے ایک اور بلاگ تحریر کرنا پڑے گا۔
قصہ مختصر۔۔۔ پاکستان میں انتخابات کا ہنگامہ ختم ہوئے دو ہفتے سے زائد گزر چکے، کامیابی کا بگل بجانے والی جماعت باقاعدہ طور پر اپنی نشت سنبھالنے سے پہلے ہی دعوے اور وعدے کرنے میں جوشیلی اور پھرتیلی نظر آئی۔۔۔ چلیں۔۔۔ اچھی بات ہے۔۔۔ ’دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘۔
جیت کی خبر ملتے ہی انتخابات کی دوڑ میں کامیابی کا میڈل لینے والی جماعت کے قائد میاں نواز شریف (جو تیسری بار وزیراعظم بنیں گے) نے فوراً ہی تمام جماعتوں کو دعوت دی کہ وہ ان کے ساتھ مل کر ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے امن مذاکرات میں ان کا ساتھ دیں۔ مگر یہ بات زیادہ دن تک نہیں چل پائی کیونکہ 29 مئی بدھ کے روز تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے تصدیق کی کہ ان کا ایک اہم سربراہ، ڈپٹی لیڈر ’ولی الرحمان محسود‘ میران شاہ میں مبینہ امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا اور ساتھ ہی اس نے اعلان کیا کہ حکومت کے ساتھ اب کوئی امن مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔
ویسے تو دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات چند مہینے قبل بھی سامنے آئی تھی جس پر طالبان بھی راضی تھے مگر اس کے باوجود ان دنوں میں ملک بھر میں دہشت گردی کے ان گنت واقعات سامنے آئے سینکڑوں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے، کراچی میں سو سے زائد شعیہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کو مار دیا گیا، انسداد پولیو کے لیے بنائی گئی ٹیموں پر حملے کیے گئے اور ٹیم کے ارکان کو مارا گیا۔
اب تھوڑا ماضی میں لے چلُوں آپ کو تو پاکستان کی ایک تھنک ٹینک پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (پی آئی پی ایس) کے 2011،12 کے ایک تجزیہ میں تجزیہ نگار سہیل حبیب تاجک (جو خود ایک پولیس افسر ہیں) کے مطابق پاکستانی حکومت اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے نیک محمد کے درمیان 2004 میں وزیرستان کے علاقہ شقئی میں طے پایا۔ علاقہ میں فوجی آپریشن کے بعد طے پانے والا ’شقئی‘ معاہدہ صرف 50 روز تک ہی قائم رہا جس کے بعد نیک محمد کو مارنے کے لیے پاک فوج کو علاقہ میں ایک اور آپریشن کرنا پڑا مگر نیک محمد کی موت مبینہ امریکی ڈرون حملہ میں ہوئی۔ اسی طرح 2005ء میں پھر ٹی ٹی پی کے بیت اللہ محسود اور پاکستانی حکومت کے درمیان جنوبی وزیرستان کے علاقہ سراروغہ میں ایک امن معاہدہ طے پایا۔ سراروغہ امن معاہدہ کا انجام بھی پہلے معاہدہ جیسا ہی ہوا مگر اس بار بیت اللہ محسود کو مارنے میں وقت لگا اور وہ 2009ء میں مبینہ امریکی ڈرون کا نشانہ بنا۔ ان دونوں معاہدوں میں حکومت کا مطالبہ تھا کہ تحریک طالبان پاکستان غیر ملکی طالبان کو حکومت کے حوالے کرے، ان کی رجسٹرئشن کروائے اور مزید طالبان کی ملک میں آمدورفت بند کروائے، تیسرا اہم معاہدہ سوات امن معاہدہ کے نام سے مشہور ہے جو خیبر پختونخواہ عوامی نیشنل پارٹی اور صوفی محمدکی تحریک نفاذ شریعت محمدی کے ارکان کے درمیان اپریل 2008ء میں طے پایا۔ جبکہ دوسرا سوات امن معاہدہ سوات کے شدت پسند فضل اللہ اور عوامی نیشنل پارٹی کے درمیان مئی 2008ء میں طے پایا۔ یہ معاہدہ مالاکنڈ ڈویژن میں شریعت کا نفاذ، پاکستانی فوج کا علاقہ سے انخلاء، دیگر مذاہب کے افراد کی مذہبی آزادی اور انسداد ِ پولیو مہم میں رکاوٹ نہ ڈالنے جیسی کئی شقوں پر مبنی تھا مگر اس معاہدہ کی عمر بھی باقی معاہدوں کی طرح بہت کم تھی۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی معاہدے طے پائے اور ختم ہوگئے۔ اور امن کا اونٹ بچھلے کئی برسوں میں کسی کروٹ نہیں بیٹھ سکا۔ دہشت گردی کے واقعات کئی گھر اجاڑ گئے۔
پرتگالی ادارہ برائے بین الاقوامی اُمور اور سکیورٹی کی ایک حالیہ شائع ہونے والی رپورٹ کے بطابق 2001ء سے اب تک پاکستان میں 49000 افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟ تحریک طالبان پاکستان کو مذاکرات کے لیے اب کیسے راضی کیا جائے گا؟ اور اگر اس سلسلے میں نئی حکومت کامیاب ہو بھی گئی تو ان مذاکرات میں کیا حکومت کے علاوہ محمد بشیر کے اس دس سالہ بیٹے کو بھی شامل کیا جائے گا اور چار سالہ میرب کا باپ یا ان فوجیوں کے وہ بچے جنہیں ابھی تک یہ ہی معلوم نہیں ہے کہ ان کا باپ اب اس دنیا میں نہیں رہا؟ یہ لوگ تو شاید طالبان کا نام و نشان ہی مٹا دینا چاہتے ہوں۔ ان مذاکرات کی شقیں کیا ہوں گی؟ کیا ان شِقوں میں حکومت، عوام کو یہ یقین دہانی کروا سکے گی کہ طالبان اپنے ہتھیار پھینک دیں گے؟ وہ آئندہ داتا دربار، بری امام یا کسی اور درگاہ کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ نہیں بنائیں گے؟ وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کا قتل عام نہیں کریں گے؟ کیا ان مذاکرات میں پاکستان میں بسنے والے عیسائیوں، احمدیوں، خیبر پختونخواہ کے سکھوں اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں بسنے والے ہندوؤں کو بھی شامل کیا جائے گا؟ اور سب سے اہم یہ کہ اب نئی حکومت تحریک ِطالبان کو مذاکرات کی میز تک لائے گی کیسے اور تب تک ہم اور کتنے گھر اجڑنے کی توقع رکھیں؟
یہ بات کہتے ہوئے اس کی ننھے سے چہرے پر جڑی دو آنکھوں میں تیرتے آنسو سیلاب بن کر امڈنے کو تیار تھے۔ اس بچے نے اپنا باپ 7 مئی 2009 کو ریسکیو 15 کی بلڈنگ میں ہونے والے بم دھماکے میں کھویا تھا۔ اس نے آخری بار اسے گھر سے نوکری پر جاتے ہوئے دیکھا کیونکہ بارود سے بھر گاڑی اس عمارت میں جس جگہ جا کر پھٹی، اس بچھے کا باپ اپنی جان بچانے کے لیے وہیں سیمنٹ کی بنی ایک رکاوٹ کے پیچھے چھپا تھا۔ دھماکے کے بعد یوں لگا کہ جیسے محمد بشیر کو واقعی ہی زمین نگل گئی اس کی وہاں موجودگی سی سی ٹی وی فوٹیج نے ثابت کی۔
لاہور میں دہشت گردی کے واقعات کی رپورٹنگ کے دوران درجنوں واقعات ہیں جن میں جیتے جاگتے انسان آنکھ جھپکتے گوشت کے ٹکڑوں میں بکھرے ہوئے دیکھا ہے میں نے۔ میو ہسپتال کے آرتھوپیڈک وارڈ کے ہیڈ ڈاکٹر خالد جمیل نے ایک بار مجھے بتایا کہ ان دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے ان کی مصنوعی اعضاء بنانے والی ورکشاپ میں بننے والے لکڑی کے اعضاء کی طلب میں 15 سے 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔۔۔ لاہور میں ہوئے مون مارکیٹ، جی پی او چوک، داتا دربار، آرے بازار، مناواں پولیس ٹریننگ سینٹر میں ہوئے حملے اور دھماکے اور نہ جانے کتنے اور ایسے دھماکے کہ ان کی رپورٹنگ کے دوران میں نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، اگر بیان کرنا شروع کروں تو بلاگ کے اصل موضوع کے لیے ایک اور بلاگ تحریر کرنا پڑے گا۔
قصہ مختصر۔۔۔ پاکستان میں انتخابات کا ہنگامہ ختم ہوئے دو ہفتے سے زائد گزر چکے، کامیابی کا بگل بجانے والی جماعت باقاعدہ طور پر اپنی نشت سنبھالنے سے پہلے ہی دعوے اور وعدے کرنے میں جوشیلی اور پھرتیلی نظر آئی۔۔۔ چلیں۔۔۔ اچھی بات ہے۔۔۔ ’دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘۔
ویسے تو دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات چند مہینے قبل بھی سامنے آئی تھی جس پر طالبان بھی راضی تھے مگر اس کے باوجود ان دنوں میں ملک بھر میں دہشت گردی کے ان گنت واقعات سامنے آئے سینکڑوں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے، کراچی میں سو سے زائد شعیہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کو مار دیا گیا، انسداد پولیو کے لیے بنائی گئی ٹیموں پر حملے کیے گئے اور ٹیم کے ارکان کو مارا گیا۔
اب تھوڑا ماضی میں لے چلُوں آپ کو تو پاکستان کی ایک تھنک ٹینک پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (پی آئی پی ایس) کے 2011،12 کے ایک تجزیہ میں تجزیہ نگار سہیل حبیب تاجک (جو خود ایک پولیس افسر ہیں) کے مطابق پاکستانی حکومت اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے نیک محمد کے درمیان 2004 میں وزیرستان کے علاقہ شقئی میں طے پایا۔ علاقہ میں فوجی آپریشن کے بعد طے پانے والا ’شقئی‘ معاہدہ صرف 50 روز تک ہی قائم رہا جس کے بعد نیک محمد کو مارنے کے لیے پاک فوج کو علاقہ میں ایک اور آپریشن کرنا پڑا مگر نیک محمد کی موت مبینہ امریکی ڈرون حملہ میں ہوئی۔ اسی طرح 2005ء میں پھر ٹی ٹی پی کے بیت اللہ محسود اور پاکستانی حکومت کے درمیان جنوبی وزیرستان کے علاقہ سراروغہ میں ایک امن معاہدہ طے پایا۔ سراروغہ امن معاہدہ کا انجام بھی پہلے معاہدہ جیسا ہی ہوا مگر اس بار بیت اللہ محسود کو مارنے میں وقت لگا اور وہ 2009ء میں مبینہ امریکی ڈرون کا نشانہ بنا۔ ان دونوں معاہدوں میں حکومت کا مطالبہ تھا کہ تحریک طالبان پاکستان غیر ملکی طالبان کو حکومت کے حوالے کرے، ان کی رجسٹرئشن کروائے اور مزید طالبان کی ملک میں آمدورفت بند کروائے، تیسرا اہم معاہدہ سوات امن معاہدہ کے نام سے مشہور ہے جو خیبر پختونخواہ عوامی نیشنل پارٹی اور صوفی محمدکی تحریک نفاذ شریعت محمدی کے ارکان کے درمیان اپریل 2008ء میں طے پایا۔ جبکہ دوسرا سوات امن معاہدہ سوات کے شدت پسند فضل اللہ اور عوامی نیشنل پارٹی کے درمیان مئی 2008ء میں طے پایا۔ یہ معاہدہ مالاکنڈ ڈویژن میں شریعت کا نفاذ، پاکستانی فوج کا علاقہ سے انخلاء، دیگر مذاہب کے افراد کی مذہبی آزادی اور انسداد ِ پولیو مہم میں رکاوٹ نہ ڈالنے جیسی کئی شقوں پر مبنی تھا مگر اس معاہدہ کی عمر بھی باقی معاہدوں کی طرح بہت کم تھی۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی معاہدے طے پائے اور ختم ہوگئے۔ اور امن کا اونٹ بچھلے کئی برسوں میں کسی کروٹ نہیں بیٹھ سکا۔ دہشت گردی کے واقعات کئی گھر اجاڑ گئے۔
پرتگالی ادارہ برائے بین الاقوامی اُمور اور سکیورٹی کی ایک حالیہ شائع ہونے والی رپورٹ کے بطابق 2001ء سے اب تک پاکستان میں 49000 افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے۔