مشرقی افریقہ کے ملک تنزانیہ میں پہلی بار ایک مسلمان خاتون سمیعہ صولوہو حسن نے صدارت کا حلف اٹھایا ہے ۔ تنزانیہ کے سابق دارالحکومت دارالسلام سے، جہاں تنزانیہ کے کئی اہم سرکاری اداروں کے دفاتر موجود ہیں، وائس آف امریکہ کے نمائندے چارلز کومبے نے خبر دی ہے کہ حلف برداری کی تقریب کو دیکھنے والوں میں تنزانیہ کی کابینہ کے وزراٗ اور سابق صدور شامل سٹیٹ ہاوس میں موجود تھے.
تنزانیہ کی سرحدیں یوگنڈا، موزمبیق، ملاوی، زیمبیا، روانڈا ، برونڈی اور ڈیمو کریٹک ریپبلک آف کانگو سے ملتی ہیں۔ افریقہ کا سب سے بلند پہاڑ ماونٹ کلا منجارو شمال مشرقی تنزانیہ میں ہے۔ دو ہزار اٹھارہ میں اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق تنزانیہ کی آبادی 56.31 ملین تھی۔ آبادی میں زیادہ تعداد عیسائیوں اور دوسرے نمبر پر مسلمانوں کی ہے۔ ایسے میں ایک مسلمان خاتون کے صدارت کے منصب پر فائز ہونے کو بےحد اہم سمجھا جا رہا ہے۔
بحر ہند میں سیاحوں کے لئے مقبول سمجھے جانے والے تنزانیہ کے جزیرے زنزی بار (Zanzibar )سے تعلق رکھنے والی اکسٹھ سالہ سمیعہ حسن، سابق صدر جان میگوفولی کی نائب صدر تھیں۔ وہ پہلی مرتبہ دو ہزار پندرہ میں نائب صدر بنیں اور پھر گزشتہ برس دوبارہ نائب صدر منتخب ہوئیں۔ بدھ کو صدر میگوفولی کے انتقال کے بعد سمیعہ حسن کو اس عہدے پر صدارت کی باقی ماندہ چار سالہ مدت کے لئے تعینات کیا گیا ہے۔
تنزانیہ میں ایک خاتون کے صدارت کا عہدہ سنبھالنے پر خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لوگ امید ظاہر کر رہے ہیں کہ سمعیہ حسن کی نئی قیادت ملک میں بہتر تبدیلیاں لا آسکے گی۔
ایک شہری جوزف ابو بکر نے بتایا کہ وہ سمیعہ حسن کی کامیابی کے لئے دعا گو ہیں۔ بقول ان کے، وہ ان کی ماں جیسی ہیں، اور انہوں نے پہلی ہی سے ملک کی قیادت سنبھالے رکھی ہے۔
دارالسلام میں ایک دکان کے مالک کائندے مورو نے بتایا کہ نئی صدر کے لئے سب سے بڑا کام لوگوں کی آمدن میں اضافہ کرنا ہوگا، انہیں امید ہے کہ وہ ملک میں نئی سرمایہ کاری لے کر آئیں گی تاکہ عام لوگوں کو ملازمتیں مل سکیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایک افریقی ملک میں کسی خاتون کا پہلی بار صدارت کے منصب پر فائز ہونا روایتی تصورات کو توڑنے کے لئے بے حد اہم ہے۔ یہ تعیناتی اس سوچ کو عام کرے گی کہ خواتین بھی ہر کام کر سکتی ہیں۔ اسی لئے تنزانیہ کے میڈیا اداروں میں کام کرنے والی خواتین بےحد خوشی کا اظہار کر رہی ہیں ۔
تنزانیہ کے سابق صدر میگوفولی بدھ کے روز دارالسلام کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے تھے۔ انہیں آخری مرتبہ اکیس روز قبل دیکھا گیا تھا ۔ افواہوں کے مطابق وہ کرونا وائرس کی لپیٹ میں آگئے تھے، جبکہ وہ ایک عرصے تک تنزانیہ میں وائرس کی موجودگی سے انکار کرتے رہے تھے۔ نئی صدر سمعیہ حسن کہتی ہیں کہ سابق صدر کا انتقال دل کا دورہ پڑنے سے ہوا۔ سابق صدر کو آئندہ جمعرات کوتنزانیہ کے شمال مغربی علاقے میں ان کے آبائی شہر میں دفن کیا جائے گا ۔