مغربی یورپ جیسے خوشحال علاقوں میں اسے اکثر ماضی کا مسئلہ سمجھا جاتا رہا ہے، لیکن صحت کے ماہرین کہتے ہیں کہ ٹی بی کی ایسی قسم تیزی سے پھیل رہی ہے جس پر اینٹی بیاٹک ادویات اثر نہیں کرتیں۔
لندن —
دنیا میں 24 مارچ کو ٹی بی کا عالمی دن منایا گیا۔ ٹی بی بیکٹیریا سے پھیلنے والی مہلک بیماری ہے جس کا علاج اینٹی بیاٹک ادویات سے کیا جا سکتا ہے۔
مغربی یورپ جیسے خوشحال علاقوں میں اسے اکثر ماضی کا مسئلہ سمجھا جاتا رہا ہے، لیکن صحت کے ماہرین کہتے ہیں کہ ٹی بی کی ایسی قسم تیزی سے پھیل رہی ہے جس پر اینٹی بیاٹک ادویات اثر نہیں کرتیں۔
برطانیہ میں ٹی بی کے ایسے کیسوں کی تعداد میں ایک چوتھائی کا اضافہ ہوا اور مشرقی یورپ میں ٹی بی کے نئے کیسوں میں ایک تہائی ایسے تھے جن پر اینٹی بیاٹک دوائیں بے اثر ہو گئی تھیں۔
سینٹرل لندن میں الالو پراجیکٹ اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ وسطی اور مشرقی یورپ کے بے گھر لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں ان کی مدد کی جائے تا کہ وہ رہنے کی جگہ اور روزگار تلاش کر سکیں۔
لیکن اس فلاحی تنظیم نے ایک اور اہم مسئلے پر توجہ دینا شروع کی ہے اور وہ ہے برطانیہ میں تارکینِ وطن کی کمیونٹی میں ٹی بی پر قابو پانا۔
لتھووینیا کے ریمگاڈاس پلینچناس نے ٹی بی کے علاج کا 18 مہینے کا کورس مکمل کیا ہے۔ انہیں جس قسم کی ٹی بی کا مرض تھا اس میں کئی قسم کی اینٹی بیاٹک ادویات کے خلاف مدافعت پیدا ہو گئی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ٹی بی کے علاج سے ان کی بصارت متاثر ہوئی ہے ۔ علاج مکمل ہونے کے بعد بھی ان کی حالت اچھی نہیں ہے۔ ‘‘سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور کمزوی محسوس ہوتی ہے۔’’
2011 میں برطانیہ میں ٹی بی کے 400 ایسے کیسوں کی اطلاع ملی تھی جن میں اینٹی بیاٹک ادویات اثر نہیں کرتی تھیں۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں یہ تعداد بہت زیادہ معلوم نہیں ہوتی، لیکن اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں یہ تعداد 26 فیصد زیادہ ہے۔
الالو پروجیکٹ کے منیجر ڈیوڈ برراٹ کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ ہر سال ٹی بی کا علاج اور زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔
‘‘گذشتہ چند برسوں سے ایسے کیسوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جن پر کئی اینٹی بیاٹک ادویات اثر نہیں کرتیں۔ ہمیں یہ سروس شروع کیے ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ ہوا ہے۔ ابتدا میں ہماری توقع یہ تھی کہ یہ ٹی بی کے عام مریضوں کے لیے ہوگی جس میں چھہ مہینوں کا علاج کافی ہوتا ہے۔ ہمارے پاس 14 کیس آئے، ان میں سے 13 ایسے تھے جن میں اینٹی بیاٹک ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا ہو گئی تھی۔’’
برطانیہ میں ٹی بی کے بعض ایسے کیسوں کا تعلق جن پر دوائیں اثر نہیں کرتیں، براعظم یورپ کے مشرقی نصف حصے سے بنتا ہے جہاں ٹی بی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
ٹی بی کے مرض میں دواؤں سے مدافعت عام طور سے اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ اینٹی بیاٹک دواؤں کا کورس مکمل نہیں کیا جاتا۔ لیکن مشرقی یورپ کے بعض ٹیسٹوں سے پتہ چلا ہے کہ اب اس مرض کی ایسی قسم جس پر دواؤں کا اثر نہیں ہوتا، اب براہِ راست ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگ رہی ہے۔
ابراہیم ابوبکر یونیورسٹی کالج، لندن میں ٹی بی کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘‘ہمارا خیال ہے کہ ایک تہائی لوگ ایسے ہیں جن کا کبھی ٹی بی کا علاج نہیں ہوا، اور اب انہیں ‘ایم ڈی آر۔ٹی بی’ یعنی دواؤں سے مدافعت والی ٹی بی کا مرض ہو چکا ہے۔ یہ بڑی پریشان کُن بات ہے کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان لوگوں کو ‘ایم ڈی آر۔ٹی بی’ کا مرض دوسرے لوگوں سے لگا، اس لیے نہیں کہ انھوں نے دوائیں غلط طریقے سے استعمال کی تھیں۔’’
دنیا کے بعض علاقوں میں ‘ایم ڈی آر۔ٹی بی’ یعنی دواؤں سے مدافعت والی ٹی بی کا خطرہ زیادہ ہے۔ اس قسم کی ٹی بی کے دو تہائی کیس جنوبی افریقہ ، روس، بھارت اور چین میں ہوتے ہیں ۔ نئی ٹکنالوجی کے ذریعے ماہرین کو ‘ایم ڈی آر۔ٹی بی’ کی زیادہ تیزی سے شناخت میں میں مدد مل رہی ہے۔
جدید ٹیکنالوجی اور نئی دواؤں پر کام ہو رہا ہے لیکن ابو بکر کہتے ہیں کہ اس بیماری پر قابو پانے کے لیے کافی پیسہ دستیاب نہیں ہے ۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اس مہینے کہا کہ ٹی بی کے علاج اور اس سے بچاؤ کے لیے درکار رقم میں ایک اعشاریہ چھہ ارب ڈالر کی کمی ہے۔
اس رقم کا نصف سے زیادہ حصہ افریقہ میں زیریں صحارا کے علاقے کے لیے مختص کیا گیا ہے، ابراہیم ابو بکر کا اس پر کہنا تھا۔
‘‘میرا خیال ہے کہ ہمیں جہاں ہونا چاہیئے، ہم اس سے کہیں پیچھے ہیں۔ اس روز بروز خراب ہوتی ہوئی صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے ہمیں مزید سرمایہ لگانا ہو گا، خاص طور سے اگر ہم ٹی بی کی ایسی اقسام پر قابو پانا چاہتے ہیں جن پر کئی دوائیں اور وسیع پیمانے پر استعمال کی جانے والی دوائیں بے اثر ہو گئی ہیں۔’’
ابو بکر کہتے ہیں کہ اگر تیزی سے سائنسی ترقی نہ ہوئی، تو ٹی بی نا قابلِ علاج بیماری بن جائے گی۔
مغربی یورپ جیسے خوشحال علاقوں میں اسے اکثر ماضی کا مسئلہ سمجھا جاتا رہا ہے، لیکن صحت کے ماہرین کہتے ہیں کہ ٹی بی کی ایسی قسم تیزی سے پھیل رہی ہے جس پر اینٹی بیاٹک ادویات اثر نہیں کرتیں۔
برطانیہ میں ٹی بی کے ایسے کیسوں کی تعداد میں ایک چوتھائی کا اضافہ ہوا اور مشرقی یورپ میں ٹی بی کے نئے کیسوں میں ایک تہائی ایسے تھے جن پر اینٹی بیاٹک دوائیں بے اثر ہو گئی تھیں۔
سینٹرل لندن میں الالو پراجیکٹ اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ وسطی اور مشرقی یورپ کے بے گھر لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں ان کی مدد کی جائے تا کہ وہ رہنے کی جگہ اور روزگار تلاش کر سکیں۔
لیکن اس فلاحی تنظیم نے ایک اور اہم مسئلے پر توجہ دینا شروع کی ہے اور وہ ہے برطانیہ میں تارکینِ وطن کی کمیونٹی میں ٹی بی پر قابو پانا۔
لتھووینیا کے ریمگاڈاس پلینچناس نے ٹی بی کے علاج کا 18 مہینے کا کورس مکمل کیا ہے۔ انہیں جس قسم کی ٹی بی کا مرض تھا اس میں کئی قسم کی اینٹی بیاٹک ادویات کے خلاف مدافعت پیدا ہو گئی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ٹی بی کے علاج سے ان کی بصارت متاثر ہوئی ہے ۔ علاج مکمل ہونے کے بعد بھی ان کی حالت اچھی نہیں ہے۔ ‘‘سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور کمزوی محسوس ہوتی ہے۔’’
2011 میں برطانیہ میں ٹی بی کے 400 ایسے کیسوں کی اطلاع ملی تھی جن میں اینٹی بیاٹک ادویات اثر نہیں کرتی تھیں۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں یہ تعداد بہت زیادہ معلوم نہیں ہوتی، لیکن اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں یہ تعداد 26 فیصد زیادہ ہے۔
الالو پروجیکٹ کے منیجر ڈیوڈ برراٹ کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ ہر سال ٹی بی کا علاج اور زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔
‘‘گذشتہ چند برسوں سے ایسے کیسوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جن پر کئی اینٹی بیاٹک ادویات اثر نہیں کرتیں۔ ہمیں یہ سروس شروع کیے ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ ہوا ہے۔ ابتدا میں ہماری توقع یہ تھی کہ یہ ٹی بی کے عام مریضوں کے لیے ہوگی جس میں چھہ مہینوں کا علاج کافی ہوتا ہے۔ ہمارے پاس 14 کیس آئے، ان میں سے 13 ایسے تھے جن میں اینٹی بیاٹک ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا ہو گئی تھی۔’’
برطانیہ میں ٹی بی کے بعض ایسے کیسوں کا تعلق جن پر دوائیں اثر نہیں کرتیں، براعظم یورپ کے مشرقی نصف حصے سے بنتا ہے جہاں ٹی بی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
ٹی بی کے مرض میں دواؤں سے مدافعت عام طور سے اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ اینٹی بیاٹک دواؤں کا کورس مکمل نہیں کیا جاتا۔ لیکن مشرقی یورپ کے بعض ٹیسٹوں سے پتہ چلا ہے کہ اب اس مرض کی ایسی قسم جس پر دواؤں کا اثر نہیں ہوتا، اب براہِ راست ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگ رہی ہے۔
ابراہیم ابوبکر یونیورسٹی کالج، لندن میں ٹی بی کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘‘ہمارا خیال ہے کہ ایک تہائی لوگ ایسے ہیں جن کا کبھی ٹی بی کا علاج نہیں ہوا، اور اب انہیں ‘ایم ڈی آر۔ٹی بی’ یعنی دواؤں سے مدافعت والی ٹی بی کا مرض ہو چکا ہے۔ یہ بڑی پریشان کُن بات ہے کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان لوگوں کو ‘ایم ڈی آر۔ٹی بی’ کا مرض دوسرے لوگوں سے لگا، اس لیے نہیں کہ انھوں نے دوائیں غلط طریقے سے استعمال کی تھیں۔’’
دنیا کے بعض علاقوں میں ‘ایم ڈی آر۔ٹی بی’ یعنی دواؤں سے مدافعت والی ٹی بی کا خطرہ زیادہ ہے۔ اس قسم کی ٹی بی کے دو تہائی کیس جنوبی افریقہ ، روس، بھارت اور چین میں ہوتے ہیں ۔ نئی ٹکنالوجی کے ذریعے ماہرین کو ‘ایم ڈی آر۔ٹی بی’ کی زیادہ تیزی سے شناخت میں میں مدد مل رہی ہے۔
جدید ٹیکنالوجی اور نئی دواؤں پر کام ہو رہا ہے لیکن ابو بکر کہتے ہیں کہ اس بیماری پر قابو پانے کے لیے کافی پیسہ دستیاب نہیں ہے ۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اس مہینے کہا کہ ٹی بی کے علاج اور اس سے بچاؤ کے لیے درکار رقم میں ایک اعشاریہ چھہ ارب ڈالر کی کمی ہے۔
اس رقم کا نصف سے زیادہ حصہ افریقہ میں زیریں صحارا کے علاقے کے لیے مختص کیا گیا ہے، ابراہیم ابو بکر کا اس پر کہنا تھا۔
‘‘میرا خیال ہے کہ ہمیں جہاں ہونا چاہیئے، ہم اس سے کہیں پیچھے ہیں۔ اس روز بروز خراب ہوتی ہوئی صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے ہمیں مزید سرمایہ لگانا ہو گا، خاص طور سے اگر ہم ٹی بی کی ایسی اقسام پر قابو پانا چاہتے ہیں جن پر کئی دوائیں اور وسیع پیمانے پر استعمال کی جانے والی دوائیں بے اثر ہو گئی ہیں۔’’
ابو بکر کہتے ہیں کہ اگر تیزی سے سائنسی ترقی نہ ہوئی، تو ٹی بی نا قابلِ علاج بیماری بن جائے گی۔