تپ دق ویکسین تجرباتی مراحل میں

تپ دق ویکسین تجرباتی مراحل میں

عالمی ادارہ ِ صحت نے حال ہی میں ایسے69 ملکوں کی فہرست مرتب ہے جہاں ٹی بی کے ایسے مریض پائے جاتے ہیں جن پر دوا اثر نہیں کرتی۔ اس کی وجہ ایسا بیکیڑیا ہے جو انسان میں تپ ِ دق کی ادویات کے لیے مدافعت پیدا کرتا ہے۔ عالمی ادارہ ِ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال25 ہزار افراد اس مسئلے کا شکار ہوتے ہیں۔
عالمی ادارہ ِ صحت کی سربراہ ڈاکٹر مارگریٹ چن کہتی ہیں کہ اس مسئلے کا فوری حل ڈھونڈنا ناگزیرہے۔

http://www.youtube.com/embed/DjXvQODThYw

طبی ماہرین کہتے ہیں کہ زیادہ تر چین اور بھارت جیسے ملکوں کے لوگ اس مسئلے کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ جس کی ایک وجہ وہاں پر مریضوں میں مرض کی درست تشخیص کا نہ ہونا یا پھر علاج کے لیے غلط دوائیں دینا ہے۔
ڈاکٹر نیرج مستری ، صحت ِ عامہ کے شعبے سے منسلک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت میں بہت کم ڈاکٹر ایسے ہیں جو ٹی بی کے مریضوں کو درست ادویات دے رہے ہیں۔ان کا کہناہے کہ اگر ہم مریضوں کو غلط دوادیں گے اور مرض کی درست تشخیص نہیں کریں گے تو ہمیں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

طبی ماہرین کہتے ہیں کہ ٹی بی کی دوا کے خلاف مریضوں میں پیدا ہونے والی قوت ِ مدافعت کی وجہ سے کسی نئی اور موثر دوا کی اہمیت ناگزیر ہو گئی ہے۔
جبکہ تب ِ دق سے بچاؤ کے لیے ویکسین کا استعمال بھی مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر این گنز برگ ، ٹی بی سے متعلق ایک ادارے سے منسلک ہیں۔ اور ٹی بی سے بچاؤ کے لیے ایک ویکسین پر کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں امید ہے کہ 2020ء تک یہ ویکسین تیار ہو جائے گی۔

ان کا کہناہے کہ ٹی بی کے لیے ویکسین کی تیاری ایک طویل اور وقت طلب مرحلہ ہے۔ اس کی وجہ اس بیماری کی پیچیدہ نوعیت ہے۔ عموما لوگوں کو ٹی بی ہو جاتی ہے اور وہ برسوں تک بیمار نہیں پڑتے ۔ اسی لیے اس کی دوا بنانے کےلیے اور لوگوں پر تجربہ کرنے کے لیے بہت وقت چاہیئے۔

بی کے لیے نئی ویکسین کا انتظار بہت طویل اور صبر آزما ثابت ہو سکتا ہے۔ عالمی ادارہ ِ صحت کا کہنا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ ٹی بی کے مریضوں کے لیے اس سال کے آخر یا اگلے سال کے شروع تک ایک نئی اور مؤثر دوا سامنے لائی جا سکے۔