بھارت میں مقامی طور پر تیار کیے گئے لڑاکا طیاروں نے جمعے کو پہلی مرتبہ باضابطہ پرواز کی۔ مقامی دفاعی صنعت کے فروغ اور بیش قیمت غیر ملکی درآمدات پر انحصار کو کم کرنے کے لیے 31 سال قبل ان طیاروں کی تیاری کے منصوبے کی منظوری دی گئی تھی۔
بھارتی لڑاکا طیاروں میں روسی، برطانوی اور فرانسیسی ساخت کے طیارے شامل ہیں اور اس کی سکوارڈرنز کی تعداد کم ہو کر 33 رہ گئی ہے۔ بھارت کو پاکستان اور بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے 45 سکواڈرن کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم مودی نے فوج کو اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ’تیجس‘ نامی طیاروں کے پہلے ورژن کو قبول کرنے پر آمادہ کیا جبکہ اس کا زیادہ طاقتور ماڈل ابھی زیرتعمیر ہے۔
دو ’تیجس‘ لڑاکا طیاروں کی بھارتی فضائیہ میں شمولیت کی تقریب جنوبی شہر بنگلور میں فضائیہ کے ایئر کرافٹ سسٹمز اینڈ ٹیسٹ اسٹیبلشمنٹ مرکز میں منقعد کی گئی۔
اس موقع پر بھارتی ایئر فورس کے افسران نے ناریل توڑے اور بین المذاہب دعائیں پڑھی گئیں۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ طیارے ہندوستان ایروناٹکس نے تیار کیے ہیں اور انہیں ’فلائنگ ڈیگرز‘ نامی نئی سکواڈرن میں شامل کیا جا رہا ہے۔
اس سکوراڈرن کے بقیہ 18 طیارے 2018 تک فضائیہ میں شامل کیے جائیں گے۔
’تیجس‘ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’درخشاں‘ ہے ۔
اطلاعات کے مطابق مقامی طور پر تیار کیے جانے والے تیجس لڑاکا طیارے بھارتی فضائیہ میں روسی ساخت کے MiG-21 طیاروں کی جگہ لیں گے۔
بھارت نے اس منصوبے کا آغاز 1985 میں کیا گیا تھا اور توقع تھی کہ 1994 تک انہیں فضائیہ میں شامل کر لیا جائے گا مگر تکنیکی وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہو گیا۔
تاہم دسمبر 2013 میں پہلی مرتبہ اندرون ملک تیار کیے گئے طیارے پرواز کے قابل ہوئے۔
رواں ماہ چین نے کہا تھا کہ وہ اپنے پہلے سٹیلتھ لڑاکا طیارے جے 20 کے تجربات کر رہا ہے مگر اسے جلد فضائیہ میں شامل کیا جائے گا۔ سٹیلتھ ٹیکنالوجی کے باعث ایسے طیاروں کو پرواز کے دوران پتا چلانا مشکل ہوتا ہے۔
ایک سیٹ والا بھارتی لڑاکا طیارہ پاکستان اور چین کے اشتراک سے تیار کیے جانے والے جے ایف 17 سے بہتر تصور کیا جا رہا ہے۔
فضائیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ تین ہزار گھنٹے تک پرواز کے دوران تیجس کو کسی حادثے کا سامنا نہیں ہوا اور اسے ایسے دھاتی عناصر سے تیار کیا گیا ہے کہ فوراً اس کا راڈار کے ذریعے پتا چلانا مشکل ہے۔