بھارت کے جنوبی شہر، حیدرآباد دکن میں ہفتے کے روز ایک لاکھ افراد نے پرامن مظاہرہ کیا، جس میں سے متعدد افراد نے بھارت کے ترنگےجھنڈے اٹھا رکھے تھے، جو وزیر اعظم نریندر مودی کے نئے شہریت کے قانون کے نفاذ کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔
اس احتجاجی مظاہرے کو 'ملین مارچ' کا نام دیا گیا تھا، جس کا انعقاد مسلمان تنظیموں کے ایک گروپ اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے کیا تھا۔ حیدرآباد کی تقریباً 40 فی صد آبادی، جو 70 لاکھ کے قریب بنتی ہے، مسلمان ہے۔
رائٹرز کی خبر کے مطابق، ہفتے کی شام گئے تک مظاہرین کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی، جب کہ پولیس یہ انتباہ کر چکی تھی کہ مارچ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ حکام کی جانب سے 1000 نفوس کو جمع ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔
شہریت کے متنازع ترمیمی قانون پر بھارتی حکومت کو سخت تنقید کا سامنا ہے، اس معاملے پر احتجاج کئی بار شدت اختیار کر چکا ہے۔ مودی کی حکومت نے یہ ترمیمی بل دسمبر میں منظور کیا تھا۔
حیدرآباد دکن کے مظاہرین نے کتبے اٹھا رکھے تھے، جن میں 'شہریت کا ترمیمی ایکٹ فوری طور پر واپس لیا جائے' اور 'بھارت کا واحد مذہب، سیکولرازم ہے' کے نعرے درج تھے۔
رائٹرز کا کہنا ہے کہ احتجاج پرامن تھا، جس میں ایک لاکھ سے زائد افراد شریک تھے۔
اس نئے ترمیمی قانون کے تحت افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کے مسلمان اکثریت رکھنے والے ہمسایہ ملکوں کی اقلیتوں کو بھارتی شہریت دینے کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ لیکن، اگر اسے مجوزہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے ساتھ پڑھا جائے تو شہریت کے ترمیمی بل کے ناقدین اس بات کا شبہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی مدد سے بھارت کی مسلمان اقلیت کو امتیاز کا نشانہ بنایا جائے گا اور بھارتی آئین سے سیکولرازم کی شق ختم کی جا سکتی ہے۔
مودی حکومت کا کہنا ہے کہ نیا قانون اس لیے ضروری ہے تاکہ مسلمان اکثریت والے ہمسایہ ملکوں میں غیر مسلم اقلیت کے خلاف روا رکھے جانے والے امتیاز کا مداوا کیا جا سکے۔ حکومت نے احتجاجی مظاہروں کے محرکات کو سیاسی قرار دیا ہے۔
دسمبر کے اوائل سے اب تک ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس سے ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 25 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہفتے ہی کے روز بھارت کے مختلف شہروں میں، جن میں کرناٹک کی جنوبی ریاست بھی شامل ہے، احتجاج کے لیے ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔
ادھر بنگلور میں، جسے بھارت کا ٹکنالوجی کا مرکز قرار دیا جاتا ہے، سینکڑوں مرد و خواتین نے ریلی نکالی، جس میں سے کچھ افراد نے مودی حکومت پر بھارت کو فرقہ ورانہ بنیاد پر تقسیم کرنے کا الزام لگایا، تاکہ، بقول ان کے، داخلی طور پر معیشت کی شدید سست روی اور روزگار کے ذرائع میں آنے والی کمی سے توجہ ہٹائی جا سکے۔