لاپتا طیارے کے مسافروں کے رشتے داروں نے حکام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، جب کہ بعض لواحقین نے بینر اٹھا رکھے تھے جن پر "ملائیشیا سچ بتاو" تحریر تھا۔
ملائیشیا کے حکام کی طرف سے کی جانے والی روزانہ پریس کانفرنس میں لاپتا طیارے کے مسافروں کے چینی رشتے داروں نے حکام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
غمزدہ خاندان اس کمرے میں گھس آئے جہاں حکام صحافیوں کو بریفنگ دے رہے تھے اور انھوں نے شور و غوغا شروع کردیا۔ لواحقین نے بینر اٹھا رکھے تھے جن پر "ملائیشیا سچ بتاو" تحریر تھا۔
یہیں ایک خاتون ملائیشیئن ایئرلائنز کے عہدیدار پر برس پڑیں۔ " میں روز تمہارے فضول سوالات کا سنتی ہوں، میں روز تمہیں دیکھ رہی ہوں، میں اس صورتحال سے تنگ آچکی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ تم جانتے ہوکہ ہم کچھ نہیں کر سکتے سوائے رونے دھونے کے۔ تم جھوٹ بولنے کے ساتھ ساتھ، دھوکہ دے رہے اور گینگسٹر کا کردار ادا کر رہے ہو۔"
گیارہ روز گزرنے کے باوجود بھی طیارے پر سوار افراد کے لواحقین کسی بھی طرح کی مصدقہ خبر حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور بعض اطلاعات کے مطابق چند لواحقین نے حکام کی طرف سے اپنے پیاروں سے متعلق خبر نہ دینے پر بھوک ہڑتال کی دھمکی بھی دی ہے۔
لاپتا طیارے کے 227 مسافروں میں سے دو تہائی افراد کا تعلق چین سے تھا۔ اکثر خاندانوں کا موقف ہے کہ ملائیشیا کی طرف سے انھیں متضاد اطلاعات اور مبہم معلومات فراہم کی جارہی ہیں جس سے ان کا غصہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ بعض لواحقین نے تو بھوک ہڑتال کی دھمکی بھی دے دی ہے۔
اُدھر تھائی لینڈ نے ملائیشیا کے لاپتا مسافر طیارے کے روٹ کی دوبارہ نشاندہی کے لیے تفتیش کاروں کو کچھ نئے قابل ذکر شواہد فراہم کیے ہیں جب کہ جہاز کی تلاش کی سرگرمیوں کا دائرہ آسٹریلیا کے رقبے کے برابر علاقے تک پھیلا دیا گیا ہے۔
آٹھ مارچ کو ملائیشیا کا ایک بوئنگ 777 ‘ایم ایچ 370’ مسافر طیارہ عملے اور مسافروں سمیت 239 افراد کو بیجنگ لے جانے کے لیے کوالالمپور سے پرواز کے ایک گھنٹے بعد ہی لاپتا ہو گیا تھا۔
جہاز کا تاحال کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے جب کہ 26 ملکوں کی کشیتاں، جہاز اور دیگر امدادی عملہ اس کی تلاش کی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔
دریں اثناء بدھ کو چین کا کہنا ہے کہ اسے بھی ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ لاپتا طیارہ اس کی حدود میں داخل ہوا ہو۔
ملائیشیا اور امریکہ کے حکام باور کر رہے ہیں کہ جہاز نے دانستہ طور پر اپنے مقررہ راستے سے ہزاروں کلومیٹر سے ہٹ کر پرواز کی، لیکن عملے اور مسافروں کی تفصیلات کی مکمل چھان بین کے بعد بھی یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ایسا کیوں ہوا۔
ملائیشیا نے اس طیارے تلاش کے لیے دنیا اور خطے کے ملکوں سے معلومات کے تبادلے کی درخواست کر رکھی ہے۔ پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ اس کے راڈار پر ایسی کوئی نشاندہی نہیں ہوئی کہ لاپتہ طیارہ اس کی فضائی حدود میں داخل یا پھر یہاں سے گزرا ہو۔
ایک روز قبل ملائیشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق نے اپنے پاکستانی ہم منصب نوازشریف کو فون کر کے طیارے کی تلاش میں تعاون کی درخواست کی تھی۔ پاکستانی وزیراعظم نے انھیں اس ضمن میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
غمزدہ خاندان اس کمرے میں گھس آئے جہاں حکام صحافیوں کو بریفنگ دے رہے تھے اور انھوں نے شور و غوغا شروع کردیا۔ لواحقین نے بینر اٹھا رکھے تھے جن پر "ملائیشیا سچ بتاو" تحریر تھا۔
یہیں ایک خاتون ملائیشیئن ایئرلائنز کے عہدیدار پر برس پڑیں۔ " میں روز تمہارے فضول سوالات کا سنتی ہوں، میں روز تمہیں دیکھ رہی ہوں، میں اس صورتحال سے تنگ آچکی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ تم جانتے ہوکہ ہم کچھ نہیں کر سکتے سوائے رونے دھونے کے۔ تم جھوٹ بولنے کے ساتھ ساتھ، دھوکہ دے رہے اور گینگسٹر کا کردار ادا کر رہے ہو۔"
گیارہ روز گزرنے کے باوجود بھی طیارے پر سوار افراد کے لواحقین کسی بھی طرح کی مصدقہ خبر حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور بعض اطلاعات کے مطابق چند لواحقین نے حکام کی طرف سے اپنے پیاروں سے متعلق خبر نہ دینے پر بھوک ہڑتال کی دھمکی بھی دی ہے۔
لاپتا طیارے کے 227 مسافروں میں سے دو تہائی افراد کا تعلق چین سے تھا۔ اکثر خاندانوں کا موقف ہے کہ ملائیشیا کی طرف سے انھیں متضاد اطلاعات اور مبہم معلومات فراہم کی جارہی ہیں جس سے ان کا غصہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ بعض لواحقین نے تو بھوک ہڑتال کی دھمکی بھی دے دی ہے۔
اُدھر تھائی لینڈ نے ملائیشیا کے لاپتا مسافر طیارے کے روٹ کی دوبارہ نشاندہی کے لیے تفتیش کاروں کو کچھ نئے قابل ذکر شواہد فراہم کیے ہیں جب کہ جہاز کی تلاش کی سرگرمیوں کا دائرہ آسٹریلیا کے رقبے کے برابر علاقے تک پھیلا دیا گیا ہے۔
آٹھ مارچ کو ملائیشیا کا ایک بوئنگ 777 ‘ایم ایچ 370’ مسافر طیارہ عملے اور مسافروں سمیت 239 افراد کو بیجنگ لے جانے کے لیے کوالالمپور سے پرواز کے ایک گھنٹے بعد ہی لاپتا ہو گیا تھا۔
جہاز کا تاحال کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے جب کہ 26 ملکوں کی کشیتاں، جہاز اور دیگر امدادی عملہ اس کی تلاش کی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔
دریں اثناء بدھ کو چین کا کہنا ہے کہ اسے بھی ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ لاپتا طیارہ اس کی حدود میں داخل ہوا ہو۔
ملائیشیا اور امریکہ کے حکام باور کر رہے ہیں کہ جہاز نے دانستہ طور پر اپنے مقررہ راستے سے ہزاروں کلومیٹر سے ہٹ کر پرواز کی، لیکن عملے اور مسافروں کی تفصیلات کی مکمل چھان بین کے بعد بھی یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ایسا کیوں ہوا۔
ملائیشیا نے اس طیارے تلاش کے لیے دنیا اور خطے کے ملکوں سے معلومات کے تبادلے کی درخواست کر رکھی ہے۔ پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ اس کے راڈار پر ایسی کوئی نشاندہی نہیں ہوئی کہ لاپتہ طیارہ اس کی فضائی حدود میں داخل یا پھر یہاں سے گزرا ہو۔
ایک روز قبل ملائیشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق نے اپنے پاکستانی ہم منصب نوازشریف کو فون کر کے طیارے کی تلاش میں تعاون کی درخواست کی تھی۔ پاکستانی وزیراعظم نے انھیں اس ضمن میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔