فوج نے رہا کیے گئے متعدد افراد کے وڈیو بھی جاری کیے جن میں ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ کسی طرح کا ناروا برتاؤ نہیں کیا گیا۔
تھائی لینڈ میں فوجی حکومت نے بدھ ے روز کہا کہ تحویل میں لیے گئے اکثر افراد کو رہا کیا جاچکا ہے۔
ترجمان ویراکوہن سوکوندھاپالیتپاک کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں، سرگرم کارکنوں، صحافیوں اور دانشوروں سمیت 253 افراد کو فوج نے طلب کیا تھا۔ ان کے بقول 125 کو رہا کیا جاچکا ہے جبکہ 76 اب بھی تحویل میں ہیں اور 53 لوگ ان کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔
فوج نے رہا کیے گئے متعدد افراد کے وڈیو بھی جاری کیے جن میں ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ کسی طرح کا ناروا برتاؤ نہیں کیا گیا۔
وڈیو میں "ریڈ شرٹ" نامی احتجاجی تحریک کے رہنما جاتوپورنپرومپان بھی شامل تھے۔ وہ برطرف وزیراعظم ینگ لک شیناواترا کی حکومت کے حامیوں میں شمار ہوتے ہیں۔
ادھر بدھ ہی کو مظاہرین کے اکثر رہنماؤں نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیا جبکہ دوسری طرف فوج نے بظاہر اقتدار پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے ان مشیروں کی تقرری کی ہے جن کے بارے میں خیال کیا جار ہا ہے کہ وہ شہنشاہ کے ساتھ اچھے روابط رکھنے کے ساتھ ساتھ سابق وزیراعظم تھاکسن شیناوترا کے بھی مخالف ہیں۔
مظاہرین کے ایک ر ہنما بدھ راہب لوہانگ بدھا اسارا بد ھ کو سب سے پہلے خصوصی تفتیش کے ادارے میں پیش ہوئے۔
انہو ں نے پولیس سے بنکاک میں پرتشدد مظاہرو ں میں ان کے مبینہ کردار کے بارے سوال و جواب کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندو ں سے بات کرتے ہوے کہا کہ " میرا خیا ل ہے میں ہم نے صحیح کام کیا ۔ ہم نے کسی پر حملہ کرنے اور مارنے کی دھمکی نہیں دی۔ ہم نے نہ ہی سرکاری عمارتوں کو تباہ کیا نہ ہی سرکاری عمارتوں کو بند کیا ہمارے آنے سےپہلے ہی وہ بند کر دی گئی تھیں۔ تحفظ امن و عام یعنی این پی او سی کی طرف سے ہمیں خط لکھا گیا جس میں سیکورٹی کی دھمکیوں کاذکر تھا لیکن ہمارے پاس واضح شہادت ہے"۔
اس ہفتے کے شروع میں بدھا اسارا اور پیپلز ڈیموکریٹک ریفارم کمیٹی یعنی پی آرڈی سی کے رہنماؤں کو بغاوت کے الزمات کو تسلیم کرنے کے بعد ان کو رہا کر دیا گیا تھا۔
تھائی لینڈ کے فوجی انقلاب کے سربراہ جنرل پرایوتھ چن اوچا کو بادشاہ کے طرف سے بطور فوجی کونسل کے سربراہ کی تائید حاصل ہو گئی ہے۔
ملک کے نمایاں سیاسی رہنماؤں کو یا تو حراست میں لے لیا گیا ہے یا وہ فوج کی طرف سے بات چیت کے لیے بلائے جانے پر پیش ہو رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کے بعد فوجی کے سربراہ جنرل پرایوتھ نے کہا تھا کہ وہ اقتدار پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے لیکن گزشتہ جمعرات کو انھوں نے حکومت کا انتظام سنبھال لیا۔ انہوں نے اپنی سربراہی میں ایک فوجی کونسل قائم کر لی جو ملک کا نظم نسق چلائے گئی۔
ترجمان ویراکوہن سوکوندھاپالیتپاک کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں، سرگرم کارکنوں، صحافیوں اور دانشوروں سمیت 253 افراد کو فوج نے طلب کیا تھا۔ ان کے بقول 125 کو رہا کیا جاچکا ہے جبکہ 76 اب بھی تحویل میں ہیں اور 53 لوگ ان کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔
فوج نے رہا کیے گئے متعدد افراد کے وڈیو بھی جاری کیے جن میں ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ کسی طرح کا ناروا برتاؤ نہیں کیا گیا۔
وڈیو میں "ریڈ شرٹ" نامی احتجاجی تحریک کے رہنما جاتوپورنپرومپان بھی شامل تھے۔ وہ برطرف وزیراعظم ینگ لک شیناواترا کی حکومت کے حامیوں میں شمار ہوتے ہیں۔
ادھر بدھ ہی کو مظاہرین کے اکثر رہنماؤں نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیا جبکہ دوسری طرف فوج نے بظاہر اقتدار پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے ان مشیروں کی تقرری کی ہے جن کے بارے میں خیال کیا جار ہا ہے کہ وہ شہنشاہ کے ساتھ اچھے روابط رکھنے کے ساتھ ساتھ سابق وزیراعظم تھاکسن شیناوترا کے بھی مخالف ہیں۔
مظاہرین کے ایک ر ہنما بدھ راہب لوہانگ بدھا اسارا بد ھ کو سب سے پہلے خصوصی تفتیش کے ادارے میں پیش ہوئے۔
انہو ں نے پولیس سے بنکاک میں پرتشدد مظاہرو ں میں ان کے مبینہ کردار کے بارے سوال و جواب کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندو ں سے بات کرتے ہوے کہا کہ " میرا خیا ل ہے میں ہم نے صحیح کام کیا ۔ ہم نے کسی پر حملہ کرنے اور مارنے کی دھمکی نہیں دی۔ ہم نے نہ ہی سرکاری عمارتوں کو تباہ کیا نہ ہی سرکاری عمارتوں کو بند کیا ہمارے آنے سےپہلے ہی وہ بند کر دی گئی تھیں۔ تحفظ امن و عام یعنی این پی او سی کی طرف سے ہمیں خط لکھا گیا جس میں سیکورٹی کی دھمکیوں کاذکر تھا لیکن ہمارے پاس واضح شہادت ہے"۔
اس ہفتے کے شروع میں بدھا اسارا اور پیپلز ڈیموکریٹک ریفارم کمیٹی یعنی پی آرڈی سی کے رہنماؤں کو بغاوت کے الزمات کو تسلیم کرنے کے بعد ان کو رہا کر دیا گیا تھا۔
تھائی لینڈ کے فوجی انقلاب کے سربراہ جنرل پرایوتھ چن اوچا کو بادشاہ کے طرف سے بطور فوجی کونسل کے سربراہ کی تائید حاصل ہو گئی ہے۔
ملک کے نمایاں سیاسی رہنماؤں کو یا تو حراست میں لے لیا گیا ہے یا وہ فوج کی طرف سے بات چیت کے لیے بلائے جانے پر پیش ہو رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کے بعد فوجی کے سربراہ جنرل پرایوتھ نے کہا تھا کہ وہ اقتدار پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے لیکن گزشتہ جمعرات کو انھوں نے حکومت کا انتظام سنبھال لیا۔ انہوں نے اپنی سربراہی میں ایک فوجی کونسل قائم کر لی جو ملک کا نظم نسق چلائے گئی۔