تھائی لینڈ کی فوج نے میڈیا کی آزادی پر جاری کریک ڈاؤن کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے ویتنام میں مونٹانیارڈ نسلی اقلیت کے مبینہ استحصال پر بینکاک میں منعقدہ ایک نیوز کانفرنس کو منسوخ کر دیا ہے۔
امریکہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ کی پریس کانفرنس کو مقامی پولیس نے فوجی حکومت کی جانب سے ایک سرکاری حکمنامہ دکھا کر روک دیا جس میں لکھا تھا کہ یہ تقریب قومی سلامتی اور تھائی لینڈ اور ویتنام کے دوطرفہ تعلقات کے لیے خطرہ ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں ویتنام میں مسیحی اقلیت مونٹانیارڈ کے خلاف ذیادتیوں کی تفصیلات بتائی جانی تھیں۔ مگر اس تقریب سے کچھ دیر پہلے یونیفارم اور سادہ لباس میں اہلکاروں نے ’فارن کارسپونڈنٹ کلب آف تھائی لینڈ‘ کے باہر آ کر وہاں موجود لوگوں کی عکسبندی شروع کر دی۔
کلب کی ڈائریکٹر صحافی ورونیکا پیڈروسا نے کہا کہ اس تقریب کو رکوانے کے لیے عبوری آئین کے آرٹیکل نمبر 44 کا حوالہ دیا گیا، جس کے تحت فوجی رہنماؤں کو وسیع صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا تھا کہ اس کی رپورٹ ویتنام میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی عمومی خلاف ورزیوں کا مسئلہ اجاگر کرے گی۔
تھائی لینڈ میں ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ محقق سونائی پاسک نے کہا کہ فوج کا یہ اقدام تھائی لینڈ اور علاقے میں انسانی حقوق پر بحث کو روکنے کی کوشش کو ظاہر کرتا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق تھائی وزارت خارجہ کے حکام نے اس تشویش کا اظہار کیا تھا کہ ویتنام کے وزیرِ اعظم کے تھائی لینڈ دورے سے کچھ دیر قبل اس رپورٹ کی مندرجات دونوں ممالک کے تعلقات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
ایک بیان میں ہیومن رائٹس واچ نے ذرائع ابلاغ کے ساتھ اس تقریب کی منسوخی پر اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اجتماع کی آزادی کی خلاف ورزی اور ’’آزادی صحافت کی ہتک‘‘ ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ایشیا ڈائریکٹر فل رابرٹسن نے فوج کی کارروائی کو ’’حیران کن‘‘ قرار دیا کیونکہ اس رپورٹ میں مونٹانیارڈ اقلیت کے خلاف زیادتیوں میں تھائی لینڈ کا کوئی تعلق ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔
’’ہم ایک دوسرے ملک کی بات کر رہے ہیں، ہم ویتنام کی بات کر رہے ہیں۔ ماضی میں تھائی لینڈ میں دوسرے ملکوں کے بارے میں کئی رپورٹس جاری کی گئی ہیں، اس لیے یہ بات بہت حیران کن ہے کہ اس رپورٹ میں کسی طرح سے بھی تھائی لینڈ ملوث نہیں مگر اسے روک دیا گیا۔‘‘
یہ مداخلت ایسے وقت کی گئی جب امریکہ نے اپنی تازہ ترین انسانی حقوق کی رپورٹ شائع کی ہے جس میں گزشتہ سال مئی میں اقتدار سنبھالنے کے بعد فوجی حکومت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کی گئی ہے۔
امریکہ نے کہا کہ فوج نے آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت پر سخت قدغن عائد کی، اور 900 افراد کو بغیر الزام کے عارضی طور پر حراست میں لیا۔