صوبہٴسندھ کے دیہی علاقے عمرکوٹ کے تعلقہ کنری کی یونین کونسل، ولی محمد کے چھوٹے سے گاؤں ’مینا کی ڈھانی‘ میں لڑکیوں کا ایک ایسا اسکول بھی ہے جہاں وہ صرف ایک گلاس صاف پانی ملنے کی چاہ میں اسکول آتی اور تعلیم کے حصول میں دلچسپی لیتی ہیں۔
یہ اسکول صبح نو بجے لگتا اور دو بجے ختم ہوتا ہے۔ ان پانچ گھنٹوں کے دوران ہر لڑکی کو پہلے صبح کے اوقات میں اور بعد میں دوپہر کے وقت صرف دو مرتبہ ایک، ایک گلاس پانی ملتا ہے۔ کسی بھی لڑکی کو تیسرا گلاس پینے کی آسانی سے اجازت نہیں ملتی۔۔ وجہ؟
اول۔۔پورے گاوٴں میں پانی آسانی سے دستیاب ہی نہیں۔ صحرائی علاقہ ہونے کی وجہ سے پانی کئی کلومیٹر دورجا کر لانا پڑتا ہے۔ اسکول کے ٹیچر اور چوکیدار کی تنخواہ برابر ہے، یعنی دونوں کو چھ، چھ ہزار روپے ملتے ہیں۔
چوکیدار کو سائیکل پر سوار ہو کر پہلے صبح میلوں دور جا کر پینے کا صاف پانی لانا پڑتا ہے جو اسکول پہنچتے ہی لڑکیاں پی لیتی ہیں اور یوں پانی ختم ہوجاتا ہے۔ لہذا، چوکیدار کو دوبارہ اتنی ہی دور جا کر پانی لانا پڑتا ہے۔
اگر کبھی وہ چھٹی کرلے یا پانی نہ لاسکے تو لڑکیوں کے حلق بری طرح خشک ہوجاتے ہیں۔ اس روز انہیں بہت مایوسی ہوتی ہے کیوں کہ ان کے تئیں اسکول آنے کا ایک اہم مقصد ایک گلاس پینے کا صاف پانی بھی ہے۔ غربت کی وجہ سے وہ یا ان کے اہل خانہ صاف پانی گھر تک منگوانے کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے۔
وائس آف امریکہ کو اپنے گاوٴں ’مینا کی ڈھائی‘ کا یہ واقعہ آسو بائی کولہی نے بتایا جو کہتی ہیں ’جہاں پینے کو صاف پانی نہ ملے۔ پڑھائی نام کو نہ ہو۔ بیماری ہر تیسرے چوتھے گھر کا مقدر ہو۔ جہاں غربت نے صدیوں سے ڈیرے ڈال رکھے ہوں اور جہاں عطائی ڈاکٹر موت کے ضامن ہوں۔ وہ جگہ شاید سندھ کے علاوہ دنیا میں کوئی اور نہیں۔‘
آسو بائی 13ستمبر 1994ء کو عمر کوٹ میں ہی پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق ہندو برادری کی نچلی ذات ’کولہی‘ سے ہے۔ وہ بہت چھوٹی تھیں کہ ان کے والد کو ہپٹائٹس کا مرض ہوا اور وہ علاج سے پہلے ہی اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ ان کی آرزو تھی کہ آسو پڑھ لکھ کر گاوٴں کے اسکول میں ٹیچر کے فرائض انجام دیں۔
اپنے والد کی خواہش کو پورا کرنے والی 23سالہ آسو بائی کولہی نے دو سال پہلے ڈگری کالج کنری سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے میٹرک اور انٹر بھی گاؤں سے 16کلو میٹر دور شہر کنری سے کیا تھا۔ انہوں نے پرائمری تعلیم اپنی ہی یونین کونسل سے حاصل کی تھی۔ وہ گاؤں کی پہلی اور اب تک آخری لڑکی ہیں جو گریجویٹ ہیں۔
وی او اے سے بات کرتے ہوئے، آسو بائی اپنے والد کی موت کو یاد کرتے ہوئی آبدیدہ ہوگئیں۔ دردناک لمحات کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’میں نے ابھی اسکول کا یونیفارم بھی نہیں اتارا تھا کہ والد چل بسے۔۔۔ لیکن، میں نے ان کو سپنے کو نہیں چھوڑا اور انٹر میں آتے ہی بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔‘
صحرائے تھر میں تعلیم کے چراغ روشن کرتی آسو بائی کی بائیں ٹانگ اس وقت ضائع ہوگئی جب بچپن میں ان کو بخار کے باعث عطائی ڈاکٹر نے غلط انجکشن لگایا۔ لیکن اس معزوری کے باوجود، آسو بائی تھک کر نہیں بیٹھیں، بلکہ انہوں نے گاوٴں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے جدوجہد شروع کردی۔
آسو بائی نے بتایا کہ ہمارا گاؤں 400 گھروں پر مشتمل ہے جن میں 4ہزار سے زائد لوگ رہتے ہیں۔ نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ گاؤں میں بچوں کے مقابلے بچیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لیکن، ان کے اسکول میں بچے زیادہ پڑھتے ہیں۔بنیادی سہولیات سے محروم ان کے گاؤں میں ان کے علاوہ کوئی بھی فرد گریجویٹ نہیں ہے۔
آسو بائی پہلی بار اس وقت شہ شرخیوں میں آئیں جب مقامی اخبار میں ان کی خبر ساڑھے تین سال پہلے چھپی۔ آج سے تین سال پہلے آسو بائی کے نام سے ان کے گاؤں کے افراد کے علاوہ کوئی بھی واقف نہ تھا۔ لیکن، آج آسو بائی کے نام کی گونج امریکہ میں بھی سنی جاتی ہے ۔۔اور یورپ کے کچھ ممالک میں بھی۔
تین سال پہلے چھوٹے جھوپڑے میں بچوں کو تعلیم دینے والی آسو بائی آج ایک چار کمروں کی عمارت والے اسکول میں نہ صرف اپنے گاؤں بلکہ قریبی گاؤں کے بچوں کو بھی تعلیم دے رہی ہیں۔
آسو بائی کے مطابق پیپلز پارٹی کے رہنما علی مردان شاہ اور سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن سمیت دیگر تنظیموں کی مدد سے انہوں نے چار کمروں پر مشتمل اپنے والد کمبھو مل کے نام سے اسکول کی عمارت بنوائی ہے، جس میں گاؤں کے 500 سے زائد بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اسکول میں بچیوں کے مقابلے میں بچوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے آسو کہتی ہیں پہلے تو کوئی اپنی بچیوں کو تعلیم دلوانا ہی نہیں چاہتا تھا۔ لیکن، ان کی بڑی منتوں کے بعد آج 250 بچیاں ان سے پڑھنے ان کے اسکول آتی ہیں۔
سندھ کے ایک مقامی صحافی ساگر سہندڑو جنہوں نے آسو بائی سے رابطے میں تعاون کیا، ان کا کہنا ہے ’پہلے آسو بائی اکیلے ہی پڑھاتی تھیں۔ لیکن اب انہوں نے مزید 7اساتذہ کو بھرتی کیا ہے، جس میں سے تین خواتین اور چار مرد استاد ہیں جو قریباً15سے25کلو میٹر کا سفر طے کرکے اسکول پہنچتے ہیں۔‘
آسوبائی اس حوالے سے مزید کہتی ہیں کہ علاقے میں تعلیم کی اس قدر خراب صورتحال ہے کہ ڈھونڈنے سے بھی گریجویٹ اور ماسٹر کیا ہوا فرد نہیں ملتا اسی لئے انہوں نے میٹرک اور انٹر پاس اساتذہ کو ہی بھرتی کیا ہے۔
آسو بائی نے تسلیم کیا کہ میٹرک اور انٹر پاس لوگ بہترین سے بہترین تعلیم تو نہیں دے سکتے۔ لیکن جہاں کوئی روشنی ہو ہی نہیں وہاں ایک چراغ بھی بڑے کام آتا ہے۔ آسو بائی کے مطابق، ان کے اسکول کمبھو مل میں مقرر استادوں کو ماہانہ 6ہزار روپے دئے جاتے ہیں جو کسی طرح بھی ایک استاد کی تنخواہ نہیں ہے۔ لیکن ہمارے پاس زیادہ وسائل نہیں ہیں جس وجہ سے ہم مجبور ہیں، اسکول میں ایک چوکیدار بھی 6ہزار روپے ماہانہ میں مقرر کیا گیا ہے۔
اس وقت آسو بائی کے اسکول میں اساتذہ کی تنخواہوں، بچوں کی کتابوں اور دیگر اخراجات کی مد میں ماہانہ ڈیڑھ لاکھ سے ایک لاکھ تیس ہزار روپے خرچہ آرہا ہے جب کہ آسو بائی کو سندھ حکومت کی جانب سے ماہانہ 80ہزار 500روپے اور این سی ایچ ڈی کی جانب سے ماہانہ پانچ ہزار روپے ملتے ہیں۔ آسو بائی کو تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کے لئے اس وقت ماہانہ پچاس سے ساٹھ ہزار روپے کمی کا مسئلہ درپیش ہے۔
آسو بائی کے مطابق سندھ حکومت اور این سی ایچ ڈی کی جانب سے ان کو ماہانہ پیسے نہ ملنے کے باعث ذہنی پریشانی سمیت دیگر مسائل کا سامنہ کرنا پڑتا ہے، ان کو حکومت سے پیسے لینے کے لئے میڈیا کے سامنے احتجاج کرنے سمیت دیگر کام کرنے پڑتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت اور این سی ایچ ڈی ان کے فنڈ کو ماہانہ کی بنیاد پر لازمی جاری کرے۔
سندھ سے امریکہ تک
آسو بائی حال ہی میں ملالہ یوسف زئی کی دعوت پر نیویارک گئی تھیں جہاں انہوں نے ملالہ یوسف زئی کی زندگی پر بننے والی دستاویزی فلم کی لاؤنچنگ کی تقریب میں شرکت کی۔ تقریب میں سندھ سے ہی تعلق رکھنے والی کائنات سومرو بھی شریک ہوئیں۔ وہاں آسوبائی کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔
ملالہ یوسف زئی سے ملاقات کے بارے میں آسوبائی نے بتایا کہ ملالہ نہ صرف صاف اردو لہجے میں بات کرتیں ہیں، بلکہ وہ اچھی خاصی سندھی بھی بول لیتی ہیں۔ ملالہ یوسف زئی نے آسو بائی کولہی سے سندھی میں بھی بات کی۔
آسو بائی کو ان کی خدمات کے عوض مختلف تنظیموں اور تعلیمی اداروں کی جانب سے 2 ایوارڈز اور10 سرٹیفکیٹس مل چکے ہیں جن میں ہیومن رائٹس کی جانب سے دیا گیا ’لیجنڈ ایوارڈ‘، شاہ لطیف یونیورسٹی کی جانب سے دیا گیا ’امن دوست ایوارڈ‘ اور حکومت کی جانب سے دیا گیا ’بے نظیر بھٹو ایوارڈ‘ نمایاں ہیں۔ ان کو ’بہترین استاد‘ کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔