کتاب کے قدردانوں کو تازہ گلابوں کے مقابلے میں۔۔کتابوں میں دبے پھولوں کی خوشبو ۔۔اور ان پر’اٹی ہوئی دھول‘ سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ ادھ کھلی کتاب پر رکھے نظر کے چشمے کی پینٹنگ انہیں یوں لگتی ہے جیسے ابھی کوئی ہولے ہولے سے چلتا ہوا آئے گا۔۔ لان کے کنارے پر جاڑے کے موسم کی نرم دھوم میں رکھی آرام کرسی پر بیٹھے گا اور کتاب کے پنوں میں کھو جائے گا۔۔۔ان کے لئے یہ خیال ہی بہت جاں افزا ہوتا ہے۔
ایسے ہی لوگوں کے لئے ایم اے جناح روڈ پر واقع پرانی اور بوسیدہ سی عمارت میں قائم ’پائنیئربک ہاوٴس‘ ۔۔ 64سالہ قدیم ہونے کے باوجود کسی پرکشش شے سے کم اہمیت کا حامل نہیں۔ زمانے بدل گئے، آس پاس کا محل وقوع تبدیل ہوگیا مگر یہ بک ہاوٴس آج بھی 1950ء کے دور کی یادیں تازہ کر دیتا ہے۔ ماضی کی سنہری تاریخ، پرامن دور کے مٹتے ہوئے نظارے، انمول کتابیں اوران میں لکھے حروف سونے چاندی سے کم قیمتی نہیں۔
ایک دور میں اس کے سامنے سے ٹرامز گزرا کرتی تھیں۔ پھر وہ دور بھی آیا جب سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو زمانہ طالب علمی میں یہاں سے کتابیں خریدتے تھے۔ منسٹر بنے تو بھی یہاں آنا ان کا معمول رہا جبکہ وزیراعظم بننے کے بعد بھی انہوں نے ایک مرتبہ پورے پروٹوکول کے ساتھ یہاں آکر کتابیں خریدیں۔
دکان کے مالک علی اصغر اور ان کے بھتیجے حسین ظفر کے مطابق، ’ایک دور میں یہ بک شاپ اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی۔ بھٹو صاحب تو خیر یہاں آتے ہی رہتے تھے ان کے علاوہ فخر الدین جی ابراہیم، عبدالحفیظ پیرزادہ، خالد اسحاق ایڈووکیٹ، انیتا غلام علی، اے کے بروہی اور ابرارالحسن ایڈووکیٹ سمیت متعدد شخصیات یہاں علمی پیاس بجھانے آیا کرتے تھے۔ اے کے بروہی اور انیتا غلام علی کا تو یہ عالم تھا کہ وہ خود ہی کتابیں اٹھاتے خود ہی انہیں صاف کرتے اور خود ہی شیلف میں رکھی باقی کتابوں کو ترتیب دیتے۔‘
اپنے آپ میں تاریخی حیثیت رکھنے والا یہ بک ہاوٴس ہندوانہ دور کی طرز تعمیر رکھنے والی ایک قدیم عمارت میں قائم ہے جو غالباً 1900ء سے بھی پہلے کی ہے۔عمارت کی گراوٴنڈ فلور پر کئی دکانیں آباد ہیں جن میں سے ایک میں پائنئیربک ہاوٴس بھی شامل ہے۔ بزرگ شہری علی اصفر اور ان کے بھتیجے حسین ظفر سالوں سے روٹین کے مطابق یہ بک شاپ چلارہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت میں علی اصغر صاحب نے دکان کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا، ’یہ دکان میرے والدعنایت حسین نے سن 1950ء میں قائم کی تھی جبکہ میں 1955ء میں پیدا ہوا اور 1975ء سے یہ دکان چلارہا ہوں۔بہت چھوٹا تھا تو والد کے ساتھ ٹرام میں گھر سے دکان تک کا سفر طے کرکے یہاں پہنچا کرتا تھا۔ دکان کے عین سامنے جہاں آج بھی ٹریفک رواں دواں رہتا ہے وہاں ٹرام چلاکرتی تھی۔ آج جب دکان پر بیٹھے بیٹھے باہر کی طرف جھانکتا ہوں تو ایک لمحے کے لئے اسی دور میں کھوجاتا ہوں اور لگتا ہے جیسے ٹرام آنے والی ہو۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں: ’اس عمارت کو محکمہ آثار قدیمہ نے تاریخی ورثہ قرار دیا ہوا ہے اس لئے اسے منہدم نہیں کیا جاسکتا ۔اسے’ ورثے کی حفاظت‘ ہی سمجھیں کہ دکان میں اب تک کوئی ترمیم نہیں کی۔ قدم لکڑی کے دروازے، لوہے کی کنڈی اور قبضے، کڑیوں والی قدیم طرز کی چھت، پرانے در و دیوار اور چوکھٹیں۔۔ سب کچھ اسی دور کا ہے۔ آج تک شٹر نہیں لگایا۔ دکان پہلے دن کی طرح ہی رکھی ہے۔ ہاں پہلے یہاں اتنی دھول مٹی نہیں ہوا کرتی تھی مگر اب سارا دن کتابیں صاف کرکے تھک جاتے ہیں۔‘
حسین ظفر نے بھی پرانے وقتوں کی یادوں کو کریدتے ہوئے وی او اے کو بتایا: ’بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی )کے رہنما رام جیٹھ ملانی بھی ایک دور میں اسی عمارت کے اوپری حصے کے کرایہ دار ہوا کرتے تھے۔ ہمارے برابر والی دکان جو عرصے سے بند پڑی ہے 1901ء سے ایک ہی گھرانے کے پاس کرائے پر ہے۔ پہلے کرائے دار تو اب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ لیکن ان کی اولاد آج بھی یہاں کا باقاعدہ سے کرایہ ادا کرتی ہے۔ بلڈنگ کے موجودہ مالک سمیع اللہ ہیں۔ یہ عمارت ان کے والد سلطان احمد نے نیلامی میں 18 ہزار روپے میں خریدی تھی۔‘
علی اصغر بتاتے ہیں کہ، ’1950ء کی بہت سی کتابیں اب تک میرے پاس موجود ہیں، سال دو سال میں اس کے کچھ خریدار آجاتے ہیں۔ہم لوگ عام طور پر سرکاری پبلی کیشنز کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں مثلاً قانون، انکم ٹیکس، آئین، سرکاری گزٹس اور دوسری سرکاری پبلی کیشنز جو عام طور پر بہت کم جگہوں پر ملتی ہیں وہ ہماری شاپ کی خاصیت ہے۔ وکیل، ریسرچرز اور انکم ٹیکس ایڈوائزر وغیرہ ہمارے مستقبل گاہک ہیں۔ اس کے علاوہ نجی پبلی شرز کی کتابیں بھی ہم سپلائی کرتے ہیں ، آرڈر بھی لیتے ہیں ۔ کچھ سال پہلے تک ہم بھارت سے بڑے پیمانے پر کتابیں امپورٹ بھی کیا کرتے تھے مگر پائریسی اور نیٹ نے اب اس کی مارکیٹ ختم کردی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارا کاروبار مستقبل مندی کا شکار ہے۔‘
دکان کی ایک پرانی خاصیت یہ بھی ہے کہ جو بھی نئی بک آتی ہے اس سے متعلق معلومات دکان کے دروازے پر لگے دو لکڑی کے بلیک بورڈ زپر چاک سے لکھ دی جاتی ہیں۔ حسین ظفر کا کہنا ہے۔’یہ روایت بھی 1950ء سے چلی آرہی ہے، بورڈز بھی اتنے ہی پرانے ہیں بس ان پر سال دوسال میں بلیک رنگ کردیا جاتا ہے۔ “
علی اصغر بتاتے ہیں: ’ابتداء میں دکان کا کرایہ پانچ یا دس روپے تھا جو 1981ء کے آتے آتے 130روپے ہوگیا جبکہ موجودہ کرایہ 5ہزار روپے ہے۔ بلڈنگ کی نیلامی کے وقت ہم نے بھی اس کی بڈ دی تھی۔ لیکن، سمیع اللہ صاحب کی بڈ ہم سے زیادہ رقم کی تھی اور یوں یہ عمارت ان کی ملکیت میں آگئی اور ہم آج تک ان کے کرایہ دار ہیں۔ اس کے بعد سے اب تک ہم نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ دکان یا عمارت ہماری ملکیت میں ہونی چاہئے۔‘
علی اصغربتاتے ہیں ’میرے تین بچے ہیں۔ ایک چارٹرڈ اکاوٴنٹنٹ ہے۔ دوسرا ٹیکسٹائل انجینئر اور ایک ابھی ابھی کسی کمپنی میں ملازم ہوا ہے۔حسین کے چاربچے ہیں اور چاروں زیرتعلیم ہیں۔ حسین میرے بھتیجے ہیں۔‘
عمارت کی سیکورٹی کے حوالے سے کئے گئے ایک سوال کے جواب میں حسین ظفر کا کہنا تھا کہ، ’دکان پر1980ء سے لیکر اب تک28مرتبہ ڈکیتی ہوچکی ہے۔ان واردات کے نتیجے میں ہمارا تو نقصان ہوا ہی واردات کے وقت موجود گاہکوں کو بھی نقدی، گھڑیوں اور قیمتی موبائلز سے ہاتھ دھونا پڑے۔‘
دکان سے جڑے ایک اور سانحے سے متعلق ان کا کہنا ہے ’1980ء میں دکان کے سامنے والی دیوار اچانک گر گئی تھی جس کے نیچے دب کر چار افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے تھے۔ 2 افراد اسی دیوار کے بالکل نیچے ٹھیا لگاتے تھے تاہم وہ بچ گئے۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ، ’اسی عمارت میں 1950ء میں رام جیٹھ ملانی بھی کرایہ دار تھے جو اس وقت بھارتیہ جتنا پارٹی کے سرگرم رہنما ہیں۔ہمارے برابر والی دکان جو برسوں سے بند ہے۔ لیکن اس کے کرائے دار 1901ء سے اب تک اس کا کرایہ ادا کررہے ہیں۔‘
دکان کے قدیم ہونے کی ایک نشانی اس کا گراوٴنڈ پلس دو منزلہ ہونا بھی ہے۔ اوپری منزل پر جانے کے لئے دکان کے اندر بھی پرانے وقتوں کا زینہ بناہوا ہے۔ پہلی نظر میں یہ دکان ایک لائبریری کا تاثر دیتی ہے ۔ اس میں ایک لاکھ سے زیادہ کتابیں اس وقت بھی موجود ہیں۔
بک شیلف برما ٹیک لکڑی کی ہیں اور اسی دور کی نشانی ہیں۔ یہاں لگے پنکھے بھی اسی وقت کے ہیں۔ حسین ظفر نے بتایا: ’لکڑی کی کڑیوں والی چھت پر لگا پنکھا ’کلائمکس‘ کمپنی کا ہے۔ وہ بھی اپنی ’عمر کی 35سے زیادہ بہاریں‘ دیکھ چکا ہے۔ ایک دور میں دکان پر12 ملازم ہوا کرتے تھے جو بتدریج کم ہوتے چلے گئے جبکہ پچھلے تین سال سے یہاں ایک بھی ملازم نہیں۔
’پائنیئربک ہاوٴس‘ ۔۔علی اصغر اور حسین ظفر کے خاندانوں کی پروردہ چھوٹی سی دنیا ہے۔ چاچا، بھتیجا دونوں ایک ہی چھت تلے رہتے ہیں اور باری باری ہفتے میں تین تین دن دکان کھولتے اور بند کرتے ہیں۔ ساتواں دن چھٹی کا ہوتا ہے۔حسین ظفر کے بقول، ’بیشک، ہمارے بچے یہ شاپ چلانا نہ چاہیں۔ لیکن، ہم جب تک زندہ ہیں ہماری روٹی روزی اسی سے چلتی رہے گی۔‘