جب بھی نوکری کی بات کی جائے تو ہمارے دماغ میں صبح نو سے شام پانچ بجے کی نوکری کو ایک آئیڈیل تصور کیا جاتا ہے جس میں ہمیں دن کے آٹھ گھنٹے کام کرنا ہوتا ہے۔
دن کے آٹھ گھنٹے یعنی ہفتے میں 40 یا 48 گھنٹے کام کرنے کی روایت دنیا بھر میں بہت سے ممالک میں عام ہے لیکن کیا آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ یہ تصور آیا کہاں سے؟
اگر نہیں تو ہم آپ کو بتائیں گے کہ دن میں آٹھ گھنٹے کام کرنے کا آغاز کب ہوا۔
سن 1760 سے 1840 کے دوران برطانیہ میں جب صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا تو اس وقت لوگ زیادہ سے زیادہ کام کیا کرتے تھے اور صنعت کاروں کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ وہ اپنی پروڈکشن میں اضافہ کر سکیں۔
یہ وہ دور تھا جب صنعتی پیداوار کو بڑھانے کے لیے مشینوں کو چلانے کے لیے بھاپ اور پانی کا استعمال کیا جانے لگا تھا اور اس دوران ٹیکسٹائل، لوہے اور دیگر صنعتوں میں نئی مشینیں اور تکنیک سامنے آئی تھیں۔
پہلے صنعتی انقلاب کے دور میں ملازمین گھنٹوں کام کیا کرتے تھے اور بے شمار بوجھ تلے کام کرنے سے انسانی صحت متاثر ہونے لگی تھی جس کے بعد برطانوی صنعت کار اور وکالت کے شعبے سے وابستہ رابرٹ اووِن نے کام کرنے کے اوقات مقرر کرنے سے متعلق ایک مہم کا آغاز کیا تھا۔
SEE ALSO: ہفتے میں 55 گھنٹے یا اس سے زیادہ کام کرنا جان لیوا ہو سکتا ہے: عالمی ادارۂ صحترابرٹ اووِن کی اس مہم کا سلوگن " آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے تفریح، آٹھ گھنٹے آرام" تھا۔
امریکہ کے انٹرنیشنل سوشلسٹ ریویو میگزین میں شائع کردہ امریکی سوشلسٹ اور پولیٹیکل ایکٹیوسٹ یو جین وی ڈیبس کے انٹرنیٹ آرکائیو کے مطابق آٹھ گھنٹے کام کرنے کا تصور پہلی بار انگلینڈ کے صنعت کار رابرٹ اووِن نے 1817 میں تجویز کیا تھا۔
ہسٹری ڈاٹ کام کے مطابق گاڑیاں بنانے والی فورڈ موٹر کمپنی وہ پہلی امریکی کمپنی تھی جس نے اپنے فیکٹری ورکرز کے لیے یکم مئی 1926 سے ہفتے میں پانچ دن 40 گھنٹے کام کرنے کی پالیسی پیش کی تھی۔
اس امریکی کمپنی نے نا صرف ملازمین کے لیے کام کرنے کے اوقات مقرر کیے بلکہ انہوں نے 1914 میں ملازمین کی نو گھنٹے کی یومیہ اجرت 2.34 ڈالر کو بڑھا کر پانچ ڈالر کرنے کا اعلان کیا۔
کمپنی نے ساتھ ہی ملازمین کے ورکنگ آورز کو نو گھنٹے کے بجائے آٹھ گھنٹے بھی کیا۔ ملازمین کی تنخواہ دُگنی کرنے اور ورکنگ آورز کم کرنے کے بعد کمپنی کی پیداوار اور ملازمین کی کارکردگی میں بھی بہتری دیکھنے میں آئی تھی۔
تاہم انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق ایسے ادارے جہاں ملازمین کے کام کرنے کے لیے پانچ دن مقرر ہیں ان کے لیے ہفتے میں 40 گھنٹے کام کرنے کا معیار مقرر کیا گیا ہے جب کہ ایسے ادارے جہاں ملازمین کے کام کرنے کے لیے چھ دن مقرر ہیں وہاں ملازمین ایک ہفتے کے دوران زیادہ سے زیادہ 48 گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔
SEE ALSO: نیند کی کمی کے سبب طبی عملہ کئی ذہنی اور جسمانی مسائل کا شکار، رپورٹکیا دن میں آٹھ گھنٹے کام کرنے کا تصورمعیاری ہے؟
امریکی میگزین فوربز کے مطابق یورپی ٹیکنالوجی کمپنی ڈریجیئم گروپ کی جانب سے ایک تحقیق کی گئی جس میں کمپیوٹر ایپلی کیشن کے ذریعے ملازمین کی کام کرنے عادات کو جانچا گیا۔
اس تحقیق میں سامنے آنے والے نتائج میں یہ معلوم ہوا کہ دن میں کام کرنے کے اوقات سے زیادہ یہ چیز معنی رکھتی ہے کہ لوگ دن میں اپنے کام کو کس طرح سے سر انجام دے رہے ہیں۔
تحقیق سے یہ بھی پتا چلا کہ ایسے افراد جو کام کے دوران چھوٹے چھوٹے وقفے لیتے ہیں ان کی کارکردگی ان سے بہتر تھی جو مسلسل گھنٹوں کام کرتے رہتے ہیں۔
ہفتے میں چھٹی کا تصور کب آیا؟
ہم سب بچپن سے ہی یہ دیکھتے آ رہے ہیں کہ اسکول میں ہمیں ہفتے میں دو دن اور بعض اسکولوں میں ایک چھٹی دی جاتی تھی اور پورے ہفتے ہمیں اسی ویک اینڈ کا انتظار ہوتا تھا۔
اسی طرح دنیا بھر میں متعدد کمپنیوں کی جانب سے بھی اپنے ملازمین کو ہفتے میں آرام کرنے کے لیے ایک یا دو دن کی چھٹی دی جاتی ہے۔
کیا آپ نے کبھی اس بارے میں سوچا ہے کہ ہفتے میں چھٹی کا تصور کیسے آیا؟
ہفتے میں چھٹی کے تصور کا تعلق دراصل مذہب سے ہے، عیسائی مذہب کے ماننے والے اتوار کو عبادت کے لیے مختص رکھتے تھے جب کہ یہودی مذہب کے ماننے والوں میں یہ روایت تھی کہ وہ جمعے کو سورج غروب ہونے کے بعد سے ہفتے کو طلوع افتاب تک آرام اور عبادات کیا کرتے تھے جب کہ مسلمانوں کے لیے جمعے کا دن چھٹی اور عبادت کے لیے مختص تھا۔
بعدازاں ہفتے میں چھٹی کے اس مذہبی تصور کو آگے بڑھا کر کام کرنے والی جگہوں نے بھی اپنانا شیڈول بنانا شروع کر دیا۔
امریکی میگزین 'دی ایٹلینٹک' کے مطابق سن 1908 میں امریکی صنعت 'نیو انگلینڈ مل' نے اپنے یہودی ملازمین کے لیے ہفتے میں دو دن کی چھٹی کی روایت کا آغاز کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
نیو انگلینڈ مل نے دو دن کی چھٹی کا فیصلہ اس لیے کیا کیوں کہ ان کے یہودی ملازمین کو ہفتے کو اپنی عبادت کے لیے مختص دن کی وجہ سے اتوار کو کام کرنا پڑتا تھا جو کہ عیسائیوں کی اکثریت کو نا گوار گزرتا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ مِل نے اپنے یہودی ملازمین کو ہفتے میں دو دن کی چھٹی کی اجازت دی جس کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیگر فیکٹریوں نے بھی اس تصور کو اپنانا شروع کر دیا۔
سن 1922 میں امریکی کمپنی فورڈ موٹرز کی جانب سے اپنے ملازمین کو ہفتے میں دو دن کی چھٹی کی اجازت دی گئی۔
امریکی اخبار 'نیویارک ٹائمز' کے مطابق صنعت کار اور فورڈ موٹرز کے بانی ہینری فورڈ کے صاحب زادے اور کمپنی کے صدر ایڈسل فورڈ نے وضاحت کی تھی کہ "ہر انسان کو ہفتے میں ایک سے زیادہ دن آرام کرنے کی ضرورت ہے اور فورڈ کمپنی اپنے ملازمین کے لیے آرام دہ زندگی کو فروغ دینے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔"
ایڈسل فورڈ کا کہنا تھا کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہر انسان کو اس کے گھر والوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملے۔
ہفتے میں تین دن کی چھٹی پر تجربہ
موجودہ دور میں کام کی کاکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لیے دنیا بھر میں متعدد کمپنیوں نے ہفتے میں تین دن کی چھٹی پر بھی تجربے کرنا شروع کیے ہیں۔
سن 2018 میں نیوزی لینڈ کی ٹرسٹ مینجمنٹ کمپنی 'پریپچؤل گارجین' نے اپنے 240 ملازمین کو دو ماہ کے لیے ہفتے میں چار دن کام کرنے اجازت دی۔
دو ماہ بعد کمپنی کے ملازمین کی کارکردگی بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ اسٹاف میں دباؤ کی کیفیت میں سات فی صد کمی دیکھنے میں آئی۔
SEE ALSO: کرونا بحران اور ٹیلی ورکنگ، امریکیوں کی بڑے شہروں سے ہجرت میں اضافہعلاوہ ازیں معروف ٹیکنالوجی کمپنی مائیکروسافٹ بھی ہفتے میں چار دن کام کرنے کے حوالے سے ایک تجربہ کر چکی ہے جس کے دلچسپ نتائج سامنے آئے تھے۔
مائیکروسافٹ کمپنی نے 2019 میں اگست کے مہینے میں جاپان میں موجود اپنے دفاتر میں 2300 ملازمین کو ہفتے میں تین دن کی چھٹی کرنے کی اجازت دی۔
اس تجربے کے اختتام پر سامنے آنے والے نتائج سے معلوم ہوا کہ ہفتے میں چار دن کام کرنے سے ملازمین نا صرف خوش تھے بلکہ اس سے ان کی کارکردگی میں 40 فی صد اضافہ دیکھا گیا۔
اسی طرح اب دنیا میں متعدد کمپنیاں ہفتے میں چار دن کام کے تصور کو اپنا رہی ہیں۔